Mazhar-ul-Quran - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے آدم کی اولاد ! اپنی زینت لو (یعنی لباس پہن لیا کرو) ہر نماز کے وقت اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں
حلال چیزوں کو حرام ٹھہرانے کی تنبیہ کا حکم شان نزول : زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ مرد اور عورتیں رات کو سب ننگے طواف کرتے تھے اور بعضے قبیلہ کے لوگ بعضے چیزوں کا کھانا بھی حج کے موسم میں اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے۔ اس رسم کے مٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں، اور فرمایا کہ حرام وہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے اپنے رسول کی معرفت حرام فرمائی ہے۔ جن لوگوں نے طواف کے وقت کپڑوں کا پہننا، موسم حج میں چکنائی یا گوشت کا کھانا چھوڑ رکھا ہے، ان لوگوں کی ایک رسم ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی حکم سے ابن چیزوں کو ان لوگوں کی ملت ابراہیمی میں حرام نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ طواف اور نماز میں بنی آدم اپنے ستر کو ڈھانکیں، اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرادی ہیں، ان کا کھانا موسم حج میں یا کسی وقت میں اپنی طرف سے حرام نہ ٹھہراویں۔ پھر فرمایا کہ اے رسول اللہ کے (ﷺ) ! ان مشرکوں سے کہہ دو کہ دنیا کی ضرورت کی چیزیں چیزیں اصل میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے واسطے پیدا کی ہیں، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو برت کر اس کے شکریہ میں خالص دل سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور مشرک لوگ ان نعمتوں سے دین ودنیا سے محروم کردیئے جاویں گے۔ آخر کو فرمایا کہ جن کو کچھ سمجھ ہے ان کو قرآن شریف کی آیتوں میں اس طرح ہر آیت کی تفصیل سمجھائی جاتی ہے۔ اس پر بھی جو نصیحت کو نہ مانے گا وہ پچھتاوے گا لیکن اس وقت کا پچھتانا کام نہ آوے گا۔
Top