Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠ ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ
: اے اولادِ قوم
خُذُوْا
: لے لو (اختیار کرلو)
زِيْنَتَكُمْ
: اپنی زینت
عِنْدَ
: قیب (وقت)
كُلِّ مَسْجِدٍ
: ہر مسجد (نماز)
وَّكُلُوْا
: اور کھاؤ
وَاشْرَبُوْا
: اور پیو
وَلَا تُسْرِفُوْا
: اور بےجا خرچ نہ کرو
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
لَا يُحِبُّ
: دوست نہیں رکھتا
الْمُسْرِفِيْنَ
: فضول خرچ (جمع)
اے نبی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزّین کیا کرو اور کھاؤ اور پیؤ اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا
یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد اور قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الخ بھی نازل ہوئی۔ اے اولاد آدم تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔ باجماع اہل تفسیر زینت سے مراد وہ لباس ہے جس سے ستر عورت ہوجائے۔ مجاہد نے کہا جس سے تیرا ستر عورت ہوجائے خواہ چوغہ ہو۔ کلبی کا بھی یہی قول ہے۔ اس آیت کی تشریح میں بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ زینت سے مراد کپڑے ہیں اور مسجد سے مسجد ہی مراد ہے اسی لئے آیت کا مطلب اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ طواف یا نماز کے لئے ہر مسجد میں لباس لے لو اسی بنیاد پر ابن الہمام نے کہا ہے کہ آیت کا نزول برہنہ طواف کرنے کی حرمت کے لئے ہوا اعتبار اگرچہ الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے خصوصیت سبب مدار حکم نہیں ہوتی لیکن سبب میں سب سے پہلے براہ راست حکم کا متحقق ہونا ضروری ہے (اگرچہ حکم کا حصر اس سبب میں ہی نہیں) کیونکہ سب سے پہلے اسی سبب میں حکم کا تحقق مقصود ہوتا ہے اور پھر بالواسطہ (الفاظ کے عموم کے پیش نظر) دوسری صورتوں کے لئے بھی وہ حکم عام ہوجاتا ہے اور ہمارے نزدیک طواف کرنے میں ستر عورت ہونا واجب ہے مگر طواف کی شرط نہیں ہے اگر برہنہ طواف کرے گا تو طواف واجب کی ادائیگی ہوجائے گی مگر گناہگار ہوگا اسی طرح فرض نماز کی ادائیگی بھی برہنہ بدن نماز پڑھنے سے ہوجائے گی کیونکہ نماز کی حالت میں ستر عورت ہونا واجب ہے مگر شرط نہیں ہے ہاں گناہگار ضرور ہوگا (پس آیت سے تو استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ تنہائی میں بھی برہنہ بدن طواف یا نماز کا فرض ادا نہ ہوگا) البتہ اجماع علماء ہے کہ نماز میں ستر عورت ہونا فرض ہے (بغیر ستر عورت کے نماز نہیں ہوتی خلوت میں ہو یا جلوت میں) بعض علماء مالکیہ (جیسے قاضی اسماعیل) کا قول اس کے خلاف بھی آیا ہے مگر اجماع کے خلاف منفرد قول ناقابل اعتبار ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی مرفوع روایت بھی ہے کہ اللہ بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں فرماتا۔ رواہ ابو داؤد والترمذی والحاکم و ابن خزیمۃ۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ میرے نزدیک ظاہر یہ ہے کہ مسجد مصدر میمی ہے سجدہ کرنا اور اس سے مراد نماز ہے۔ جزء بول کر کل مراد لے لیا جاتا ہے۔ جیسے آیت (وارکعوا مع الراکعین) میں رکوع سے مراد نماز ہے اسی طرح آیت (فاقروا ما تیسر من القران) میں قرآن سے مراد بھی نماز ہے (رکوع اور قرأت نماز کے اجزاء ہیں) اس مطلب پر آیت کی عبارت دلالت کر رہی ہے کہ صرف نماز میں ستر عورت واجب ہے (یعنی طواف سے آیت کا کوئی تعلق نہ ہوگا) ۔ عرب دور جاہلیت میں برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جن کپڑوں کو پہن کر ہم نے اللہ کی نافرمانیاں کی ہیں ان کو پہن کر طواف نہیں کریں گے عورتیں بھی برہنہ طواف کرتی تھیں یہ کل واقعات آیت (یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم۔۔ مابطن) تک کے نزول کا سبب تھا۔ بلکہ حضرت آدم کا قصہ بھی اسی کی تمید کے طور پر ذکر کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ سب سے پہلا دکھ جو شیطان کی طرف سے انسان کو پہنچ وہ پوشیدنی اعضاء کی برہنگی کی شکل میں نمودار ہوا۔ تمام آیات بتارہی ہیں کہ پوشیدنی اعضاء کو چھپانے کے لئے لباس کی تخلیق اللہ کی عظیم الشان نعمت ہے اور یہی تقویٰ ہے بےپردگی اور پوشیدنی اعضاء کی برہنگی عظیم الشر فتنہ اور شیطانی اغواء ہے جس کا شکار ابلیس نے پہلے تمہارے باپ آدم ( علیہ السلام) کو کیا اور اب تم کو کر رہا ہے یہ پکی بےحیائی ہے جس کا ارتکاب باپ دادا کی پیروی میں عرب کرتے تھے اور اللہ پر بہتان باندھتے تھے کہ خدا نے ان کو اس کا حکم دیا ہے اللہ بےحیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیا کرتا اس نے تو ایک فریق کو ہدایب یاب کردیا اور ایک فریق پر گمراہی کا ثبوت ہوگیا یہ تمام آیات بتارہی ہیں کہ پوشیدنی اعضاء کی پردہ کشائی بےحیائی ہے مطلقاً حرام ہے شریف طبیعتیں اس کو برا اور قابل عیب جانتی ہیں اور دانش و دین اس کو قبیح سمجھتے ہیں اس بےحیائی کا ارتکاب طواف اور دوسری عبادات میں تو اور بھی برا ہے اس کی حرمت تو بدرجۂ اولیٰ ہے اور عرب جو دعویٰ کرتے تھے کہ طواف کے وقت کپڑے پہنے رہنا درست نہیں اور حج میں گوشت اور چکنائی کھانا حرام ہے یہ دعویٰ بالکل غلط ہے اللہ نے اس کی تردید میں فرما دیا ہے (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ ۔۔ ) اور فرمایا ہے (اِنَّمَا حَرَّمَ رَبَّی الْفَوَاحِشَ ۔۔ ) تمام بےحیائی کی باتیں اللہ نے حرام کردی ہیں۔ کشف عورت بھی بےحیائی ہے اللہ نے اس کو بھی حرام کردیا لیکن باوجود کشف عورت کی حرمت اور ستر عورت کے وجوب کے یہ بات کسی آیت میں نہیں آئی کہ پوشیدنی اعضاء کو چھپائے رکھنا (صحت) طواف کی شرط ہے (کہ اس کے بغیر طواف ادا نہ ہو) اسی لئے امام اعظم نے فرمایا کہ اگر کوئی برہنہ طواف کرے گا تو گنہگار ضرور ہوگا مگر فرض طواف ادا ہوجائے گا۔ ہاں اکثر ائمہ فرض طواف کی ادائیگی کے بھی قائل نہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ : کا بیان ہے کہ حج وداع سے ایک سال پہلے جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ : کو امیر حج بنا کر بھیجا تو آپ نے مجھے ایک جماعت کے ساتھ مقرر فرما کر حکم دیا کہ قربانی کے دن سب لوگوں میں اعلان کر دوں اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ کوئی برہنہ طواف کرے گا۔ متفق علیہ۔ امام اعظم کے خلاف ائمہ کی عقلی دلیل یہ ہے کہ برہنہ طواف کرنے کی شرعاً ممانعت ہے لہٰذا ایسی حالت میں طواف کرنے سے فرض ادا نہ ہوگا جیسے قربانی کے دن روزہ رکھنے سے فرض روزہ کی قضا نہیں ہوتی یا طلوع و غروب اور زوال کے وقت نماز پڑھنے سے قضاء فوائت نہیں ہوتی۔ رہی آیت (خذوا زینتکم عند کل مسجدٍ ) تو اس کا تقاضا صرف اتنا ہے کہ نماز میں ستر عورت شرط ہے ستر عورت کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ عام ستر عورت کا فرض ہونا اور کشف عورت کا حرام ہونا دوسری آیت سے ثابت ہے اس آیت کا کوئی تعلق طواف سے نہیں ہے البتہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد گرامی آیا ہے کہ کعبہ کا طواف کرنا بھی نماز ہے مگر اس میں بات کرنا اللہ نے مباح فرما دیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے یہ حدیث ترمذی ‘ حاکم ‘ دارقطنی ‘ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے بیان کی ہے اور ابن خزیمہ و ابن حبان نے اس کو صحیح بھی کہا ہے اس حدیث کو اگر آیت سے ملا دیا جائے تو آیت کا تعلق طواف سے بھی ہوجائے گا اگر یہ مان لیا جائے کہ منجملہ دوسری آیات کے اس آیت کا نزول بھی عام کشف عورت کی برائی ظاہر کرنے کے لئے ہوا اور کعبہ کا برہنہ طواف کرنے کی روایات کو اس آیت کا سبب نزول بھی قرار دیا جائے تب بھی یہ نہیں ثابت ہوتا کہ اس آیت کا نزول بھی طواف ہی کے سلسلہ میں ہوا اگر کسی واقعہ کے متعلق یا کسی سوال کے جواب میں کوئی حکم نازل ہو تو اس واقعہ کا فیصلہ اور اس سوال کا جواب ضرور اس حکم سے معلوم ہوجائے گا لیکن مورد نزول سے آگے بڑھ کر کوئی اور حکم معلوم نہ ہو سکے ایسا کہنا درست نہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ برہنہ طواف نہ کرنے کا حکم اس آیت کے علاوہ دوسری آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے ابن ہمام کا وارد کیا ہوا اشکال درست نہیں۔ مسئلہ رحمۃ الامۃ میں ذکر کیا گیا ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) ‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد کے نزدیک ستر عورت نماز کی شرط ہے امام مالک (رح) کے شاگردوں میں (امام مالک کے مسلک کے متعلق) روایت کا اختلاف ہے بعض کا قول تو جمہور کے موافق ہے کہ اگر ستر عورت پر قدرت ہو اور اس کے باوجود پوشیدنی اعضاء کو برہنہ چھوڑ کر نماز پڑھے گا تو نماز صحیح نہ ہوگی گویا ستر عورت صحت نماز کی شرط ہے بعض کا قول ہے کہ ستر عورت اگرچہ بجائے خود واجب ہے لیکن صحت نماز کی ضروری شرط نہیں ہے لہٰذا ستر عورت کی قدرت رکھتے ہوئے اگر کوئی برہنہ نماز پڑھے گا تو نماز فرض کی ادائیگی ہوجائے مگر ستر عورت نہ کرنے کا گناہ اس پر ہوگا۔ متاخرین مالکیہ کے نزدیک بغیر ستر کے کسی حال میں نماز صحیح نہیں۔ ابن ہمام نے اسی قول پر اجماع سلف نقل کیا ہے پچھلے زمانہ میں اگر آراء کا اختلاف ہوجائے تو اس سے اجماع سلف نہیں ٹوٹ سکتا۔ فصل آیت سے اتنا تو معلوم ہوگیا ہے کہ نماز میں ستر عورت واجب ہے لیکن عورت (یعنی پوشیدنی اعضاء کون سے ہیں اور کن اعضاء کے کتنے حصہ کو چھپانا واجب ہے اس معاملہ میں آیت مجمل ہے احادیث میں اس کا بیان آیا ہے۔ بیان حسب ذیل ہے مسئلہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک مرد کے لئے ناف سے زانو تک چھپا رکھنا واجب ہے۔ امام احمد (رح) و امام مالک (رح) کے دو مختلف قول مروی ہیں ایک قول امام ابوحنیفہ کے موافق ہے اور دوسرے قول میں ہے کہ صرف عضوء مخصوص اگلا اور پچھلا چھپا رکھنا واجب ہے اس قول کے استدلال میں حضرت انس ؓ کی روایت کردہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا۔ الی آخر الحدیث۔ اس حدیث میں آیا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی ران سے تہبند ہٹایا حضور ﷺ کی ران کی سفیدی اب بھی میری نظروں کے سامنے پھر رہی ہے۔ رواہ البخاری۔ مسلم اور احمد کی روایت میں ہے پھر تہبند ہٹ گئی۔ حضرت عائشہ ؓ : کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ : گھر کے اندر دونوں رانیں یا دونوں پنڈلیاں کھولے لیٹے ہوئے تھے اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ نے داخلہ کی اجازت طلب کی آپ نے اسی حالت میں (لیٹے لیٹے) اجازت دے دی پھر عمر ؓ داخل ہونے کے خواستگار ہوئے آپ ﷺ نے اسی حالت میں ان کو بھی اجازت دے دی کچھ دیر کے بعد عثمان طالب اجازت ہوئے تو آپ کپڑوں کو ٹھیک کر کے بیٹھ گئے۔ رواہ مسلم۔ اس حدیث میں چونکہ رانیں یا پنڈلیاں کوئی ایک لفظ وثوق کے ساتھ نہیں آیا ہے اس لئے ناقابل استدلال ہے مگر امام احمد نے چونکہ صرف رانیں کھولے لیٹنے کا ذکر کیا ہے اور حضرت حفصہ ؓ : کی روایت سے امام احمد نے جو حدیث ذکر کی ہے اس میں بھی صرف رانوں کا لفظ آیا ہے اس لئے حدیث قابل حجت ہے۔ طحاوی اور بیہقی نے ام المؤمنین حفصہ ؓ بنت عمر ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز میرے ہاں دونوں رانوں سے کپڑا ہٹائے (لیٹے) ہوئے تھے اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ : آگئے۔ الخ حضرت ابو موسیٰ ؓ کی روایت ہے کہ ایک جگہ جہاں پانی موجود تھا رسول اللہ ﷺ اپنے یا اپنا زانو کھولے بیٹھے ہوئے تھے جب حضرت عثمان آئے تو حضور ﷺ نے زانو ڈھانک لیا۔ رواہ البخاری۔ جمہور کے قول کی دلیل حضرت علی ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے ران ظاہر نہ کرو اور کسی زندہ مردہ کی ران نہ دیکھو۔ رواہ ابو داؤد و ابن ماجۃ و الحاکم والبزار۔ بعض علماء نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اس کی سند اس طرح ہے ابن جریج از حبیب بن ثابت از عاصم بن ضمرہ۔ حافظ نے لکھا ہے اس سند میں ابن جریج اور حبیب کے درمیان انقطاع ہے۔ ابو حاتم نے العلل میں لکھا ہے کہ ابن جریج اور حبیب کے درمیان واسطہ حسن بن ذکوان ہے اور یہ ضعیف ہے پھر عاصم سے حبیب کا سماع بھی ثابت نہیں یہ دوسری خوبی ہے۔ ابن معین نے کہا حبیب نے عاصم سے خود نہیں سنا دونوں کے درمیان ایک ایسا راوی ہے جو ثقہ نہیں ہے بزار نے کہا دونوں کے درمیان راوی عمرو بن خالد واسطی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کا گزر ایک شخص کی طرف سے ہوا اس شخص کی ران کھلی ہوئی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ران کو ڈھانپ لو ران بھی پوشیدنی حصہ ہے۔ رواہ الترمذی والحاکم واحمد۔ بعض علماء نے اس کو صحیح قرار دیا ہے لیکن اس کی سند میں ابو یحییٰ قتات راوی ہے جو ضعیف ہے۔ رسول اللہ ﷺ حضرت جرہد ؓ کی طرف سے گزرے جرہد : مسجد میں تھے اور ان کی ران کھلی ہوئی تھی فرمایا جرہد ؓ اپنی ران ڈھانک لو ران بھی پوشیدنی حصہ ہے۔ رواہ احمد۔ اس حدیث کی سند میں ابو زرعہ مجہول راوی ہے۔ حضرت محمد بن حجش ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت معمر ؓ کی طرف سے گزرے معمر حبوہ (1) [ سرینوں کی نوک پر دونوں پاؤں کھڑے کر کے پنڈلیوں کو رانوں سے ملا کر بیٹھنے کی شکل کو حبوہ کہتے ہیں، کمر کے پیچھے سے کسی رومال یا چادر گھما کر لانے اور سامنے کے رخ پر پنڈلیوں پر گھما کرلے جانے سے تکیہ کی طرح پشت کو سہارا لگ جاتا ہے ] بنائے بیٹھے تھے ران کا کچھ حصہ کھلا ہوا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا معمر اپنی ران ڈھانک لو۔ ران بھی پوشیدنی عضو ہے۔ رواہ احمد والبخاری فی التاریخ والحاکم فی المستدرک ‘ حافظ نے کہا اس حدیث کے تمام راوی سوائے ابوکثیر کے صحیح کے راوی ہیں ابو کثیر کی روایت ایک جماعت نے لی ہے اور اس کے متعلق میں نے کسی کی طرف سے جرح اور تعدیل نہیں پائی۔ حضرت ابو ایوب ؓ کی روایت ہے میں نے سنا رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے زانو سے اوپر عورت ہے اور ناف سے نیچے عورت ہے۔ رواہ الدارقطنی۔ اس کی سند میں عباد بن کثیر اور سعید بن راشد ہیں اور دونوں متروک ہیں۔ عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی اپنے غلام کا نکاح کرائے الی آخرہ۔ اس حدیث میں ہے کہ ناف کے نیچے سے زانو تک پوشیدنی حصہ ہے۔ رواہ الدارقطنی۔ اس کی سند میں سوار بن داؤد راوی ہے جس کو عقیلی نے نرم (یعنی ضعیف) قرار دیا ہے مگر ابن معین نے اس کو ثقہ کہا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ ان احادیث میں سے کوئی حدیث کشف ران والی حدیث سے نہیں ٹکراتی لیکن چونکہ ان احادیث میں سے ایک دوسری کی مؤید ہے اور امت نے اس کو قبول کیا ہے اس لئے بطور احتیاط ہم نے اس کو لے لیا ہے اسی بنیاد پر بخاری نے کہا ہے کہ انس ؓ والی حدیث کی سند زیادہ قوی ہے اور جرہد والی حدیث میں احتیاط زیادہ ہے اور چونکہ حضرت انس والی حدیث زیادہ قوی ہے بلکہ وہ احادیث بھی زیادہ قوی ہیں جو حدیث انس ؓ کی ہم معنی ہیں اس لئے امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا برہنہ آدمی بیٹھ کر نماز پڑھے شرمگاہ پر ہاتھ رکھ لے اور رکوع سجود کیلئے اشارہ کرے یعنی ستر عورت جو نماز کے اندر اور باہر فرض ہے اس کی رعایت امام اعظم نے کی ہے اور قیام رکوع سجود کو اس کی رعایت سے ترک کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ مسئلہ امام اعظم (رح) کے نزدیک زانو بھی پوشیدنی اعضاء میں داخل ہے حضرت علی ؓ کی روایت ہے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے زانو پوشیدنی اعضاء میں سے ہے اس حدیث کی روایت میں عقبہ بن علقمہ راوی ہے جس کو ابو حاتم رازی اور نصر بن منصور نے ضعیف کہا ہے ابو حاتم نے کہا یہ مجہول ہے منکر احادیث نقل کرتا ہے۔ ابن حبان نے کہا یہ ناقابل حجیت ہے۔ امام شافعی (رح) اور امام احمد نے حضرت ابو ایوب اور عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت کردہ احادیث مندرجۂ بالا کی بنا پر زانو کو عورت میں داخل نہیں قرار دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں زانو وہ جوڑ کا مقام ہے جہاں بالائی طرف سے پوشیدنی حصہ کی ہڈی اور نچلی طرف سے پنڈلی کی ہڈی ملتی ہے اس سے اوپر کا حصہ کھلا رکھنا حرام ہے اور نیچے کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہے ہم نے بطور احتیاط حرمت کو حلت پر ترجیح دی ہے۔ مسئلہ آزاد عورت کا پورا جسم پوشیدنی ہے امام اعظم کے نزدیک چہرہ دونوں قدم اور (گٹوں سے نیچے) دونوں ہاتھ پوشیدنی اعضاء میں داخل نہیں ہیں۔ ایک روایت میں امام شافعی ‘ امام مالک اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے دوسری روایت میں ان ائمہ کے نزدیک صرف چہرہ اور قدم مستثنیٰ ہیں دونوں پنجے یعنی گٹوں سے نیچے ہاتھ عورت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بالغہ کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کی جاتی۔ یہ بھی فرمایا عورت (سراسر) پوشیدنی ہے۔ رواہ الترمذی من حدیث ابن مسعود ؓ ۔ ابو داؤد نے مرسلاً بیان کیا ہے کہ لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کے چہرے اور پہنچوں سے دونوں ہاتھوں کے علاوہ دیکھا جانا درست نہیں۔ حضرت ام سلمہ ؓ : کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ کیا عورت صرف کرتہ اور اوڑھنی پہن کر بغیر تہبند پہنے نماز پڑھ سکتی ہے فرمایا (پڑھ سکتی ہے) اگر کرتہ اتنا لمبا ہو کہ قدموں کی پشت کو ڈھانک رہا ہو۔ رواہ الدارقطنی۔ اس روایت کی سند میں ایک شخص عبدالرحمن بن عبداللہ ہے جس کو یحییٰ نے ضعیف کہا ہے ابو حاتم نے کہا اس کی روایت ناقابل احتجاج ہے ظاہر یہ ہے کہ اس حدیث کو مرفوع قرار دینے میں غلطی کی ہے کیونکہ امام مالک اور ایک جماعت نے اس کو حضرت ام سلمہ ؓ : کا قول قرار دیا ہے۔ مسئلہ النوازل میں ہے کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مردوں کے لئے سبحان اللہ پڑھنا ہے اور عورتوں کے لئے تالی بجانا۔ ابن ہمام نے کہا اگر اسی بنیاد پر کوئی کہے کہ نماز میں عورت اگر جہر کے ساتھ قرأت کرلے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مسئلہ امام اعظم کے نزدیک باندی کے پردہ کے اعضاء ‘ مرد کے پردہ کے اعضاء کی طرح ہیں لیکن پیٹ اور پشت بھی پوشیدنی اعضاء میں داخل ہے امام مالک (رح) امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک باندی کے پردہ کے اعضاء بالکل مرد کی طرح ہیں کوئی فرق نہیں (یعنی پیٹ اور پیٹھ پردہ کے اعضاء میں داخل نہیں) بعض اصحاب شافعی (رح) نے کہا سر کلائیوں اور پنڈلیوں کے علاوہ باندی کے باقی اعضاء پردہ کے ہیں۔ بیہقی نے بروایت نافع لکھا ہے کہ صفیہ بنت ابی عبید نے بیان کیا کہ ایک عورت اوڑھنی پہنے چادر ڈالے نکلی حضرت عمر ؓ نے پوچھا یہ کون ہے جواب دیا گیا آپ ہی کی اولاد میں سے فلاں شخص کی باندی ہے ‘ آپ نے حضرت حفصہ ؓ کے پاس پیام بھیجا اور فرمایا کیا وجہ کہ تم نے اوڑھنی اور چادر پہنا کر باندی کو بیاہتا آزاد عورتوں جیسا بنا دیا یہاں تک کہ میں اس کو آزاد شوہر والی عورتوں میں سے سمجھنے لگا اور آزاد شوہر والی خیال کر کے قریب تھا کہ میں اس کی گرفت کرتا باندیوں کو آزاد شوہر والی عورتوں جیسا نہ بنایا کرو۔ بیہقی نے لکھا ہے حضرت عمر ؓ کے اس کے متعلق اقوال صحیح (الروایۃ) ہیں۔ مسئلہ امام احمد کے نزدیک فرض نماز میں مونڈھے ڈھانکنا بھی فرض ہے نفل میں مثبت منفی دونوں قول مروی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی شخص ایک کپڑا پہنے اس طرح نماز نہ پڑھے کہ مونڈھوں پر کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔ رواہ احمد۔ صحیحین میں بھی ایسی ہی روایت آئی ہے مگر بخاری نے مونڈھوں کی جگہ کندھے کا اور مسلم نے کاندھوں کا لفظ لکھا ہے جمہور کے نزدیک یہ ممانعت تنزیہی ہے (تحریمی نہیں) کرمانی بظاہر ممانعت کا تقاضا تحریم ہے (کیونکہ جب نہی مطلق ہو تو تحریم ہی پر اس کو محمول کیا جاتا ہے) لیکن مونڈھے کھلے رکھنے کے جواز پر اجماع ہوچکا ہے (اس لئے نہی کو تنزیہی کہا جائے گا) حافظ نے کہا کرمانی نے اس کے بعد خود نووی کا بیان نقل کیا ہے کہ امام احمد مونڈھے کھلے رکھنے کو حرام کہتے ہیں کرمانی کو مذکور اوّل بیان کے وقت یہ دوسرا بیان یاد نہیں رہا ورنہ اجماع کا دعویٰ نہ کرتے۔ ابن المنذر نے بھی لکھا ہے کہ محمد بن علی مونڈھے کھلے رکھنے کو ناجائز فرماتے تھے۔ طحاوی نے شرح معانی الاثار میں اس مسئلہ کے متعلق ایک باب مستقل قائم کیا ہے اور حضرت ابن عمر ؓ : کا قول بروایت طاؤس و نخعی نقل کیا ہے اور بعض لوگوں نے ابن وہب اور ابن جریر کی روایت سے بھی لکھا ہے کہ (مونڈھے (کندھے ‘ 12) کھلے رکھنا ناجائز ہے) شیخ تقی الدین سبکی نے تو امام شافعی کی عبارت اس کے وجوب کے متعلق نقل کی ہے اور اسی قول کو مختار بھی قرار دیا ہے مگر شوافع کی عام کتابوں میں اس کے خلاف منقول ہے (اور ستر منکبین کو واجب نہیں قرار دیا گیا ہے) ۔ مسئلہ اپنے اچھے کپڑے پہن کر نماز پڑھنی مستحب ہے آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ آیت میں لباس کی تعبیر لفظ زینت سے فرمائی ہے اور زینت کو پہن کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لہٰذا واجب مقدار اگرچہ اتنی ہے جس سے ستر عورت ہوجائے لیکن اس سے زیادہ لباس مستحب ہے۔ طحاوی نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو دو کپڑے پہن لیا کرے کیونکہ اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے سامنے آنے کے وقت زینت کی جائے (یعنی پورا لباس پہنا جائے) الخ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور رسول اللہ ﷺ سے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کا حکم دریافت کیا حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہوتے ہیں (یعنی ہر شخص کو تو دو کپڑے اور پورا جوڑا پہننے کی توفیق نہیں پھر ایک کپڑا ہی پہن کر نماز پڑھے گا) پھر مدت کے بعد ایک شخص نے حضرت عمر ؓ سے یہی مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا جب اللہ نے کشائش عطا فرما دی ہے تو لوگوں نے بھی کشائش سے کام لیا لوگوں نے پورے کپڑے پہن کر نماز پڑھی۔ کسی نے تہبند اور چادر پہن کر ‘ کسی نے تہبند اور قمیص پہن کر کسی نے تہبند اور قبا پہن کر کسی نے پائجامہ اور چادر پہن کر کسی نے پائجامہ اور کرتہ پہن کر کسی نے پائجامہ اور چوغہ پہن کر کسی نے تبان اور قباء ‘ تبان اور قمیص پہن کر اور شاید یہ بھی فرمایا کسی نے تبان اور چادر پہن کر۔ بغوی نے کلبی کا بیان نقل کیا ہے کہ (جاہلیت کے زمانہ میں) حج کی مدت میں بنی عامر صرف اتنا کھاتے تھے کہ زندگی باقی رہ جائے اور چربی چکنائی نہیں کھاتے تھے یہ فعل حج کی عظمت کے پیش نظر کرتے تھے مسلمانوں نے کہا (تعظیم حج کے تو) ہم زیادہ مستحق ہیں ہم بھی ایسا ہی کریں گے اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ وکلوا اور کھاؤ یعنی گوشت اور چربی کھاؤ۔ واشربوا ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین اور پیو اور حد سے مت نکلو حد سے نکلنے والوں کو یقیناً اللہ پسند نہیں کرتا یعنی گوشت اور چربی کھانا اور لباس پہننا اللہ نے حلال کیا ہے اس کو حرام بنا کر حد سے نہ نکلو۔ ابن المنذر نے عکرمہ کا بیان نقل کیا ہے کہ آیت : (قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم) کا نزول قریش کے حمیس اور بنی عامر بنی صعصعہ اور کنانہ بن بکر کے مختلف بطون کے متعلق ہوا جو حج کے زمانہ میں گوشت نہیں کھاتے تھے اور گھروں میں (دروازوں سے نہیں داخل ہوتے تھے بلکہ) گھروں کے پیچھے کی طرف سے جاتے تھے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جو دل چاہے کھا جو دل چاہے پہن۔ لیکن دو باتوں سے پرہیز رکھ حد سے تجاوز اور اترانا۔ (اخرجہ ابن ابی شیبۃ فی المصنف وعبد بن حمید فی التفسیر) ۔ (2) [ حسن کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ اپنے آخری بیٹے عبداللہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے ان کے پاس گوشت رکھا ہوا تھا پوچھا یہگوشت کیسا ہے عبداللہ ؓ نے جواب دیا یہ گوشت ہے جو مجھے پسند ہے فرمایا جس کو تیرا دل چاہے گا (کیا) اس کو کھالے گا آدمی کی یہ بڑی قید ہے کہ جس چیز کو دل چاہے اس کو کھالے۔] حضرت ابن عمر ؓ کی مرفوع روایت ہے کھاؤ اور پیو اور خیرات کرو اور پہنو۔ بغیر اسراف اور اترانے کے۔ رواہ احمد بسند صحیح و ابن ماجۃ والحاکم۔ (3) [ حضرت عمر بن خطاب ( ؓ نے فرمایا پیٹ بھر کر کھانے پینے سے پرہیز رکھو یہ جسم کا بگاڑ ہے۔ بیماری پیدا کرتا ہے نماز میں سستی کا ذریعہ ہے۔ کھانے پینے میں کمی کا التزام کرو یہ جسمانی تندرستی کا ذریعہ ہے اور اسراف سے دور رکھنے والا ہے۔ اللہ موٹے جسم کو پسند نہیں کرتا۔ آدمی جب تک اپنے دین پر خواہش کو ترجیح نہیں دے گا تباہ نہیں ہوگا۔] روایت میں آیا ہے کہ ہارون رشید کے پاس ایک عیسائی طبیب حاذق تھا ایک روز اس نے علی بن حسن بن واقد سے کہا تمہاری کتاب میں علم طب کے متعلق کچھ نہیں ہے حالانکہ علم دو ہی ہیں بدن کا علم اور دین کا علم۔ علی نے جواب دیا اللہ نے ساری طب کو آدھی آیت میں جمع کردیا ہے۔ فرمایا ہے (کلوا واشربوا ولا تسرفوا) طبیب بولا تمہارے رسول ﷺ : کا کوئی قول طب کے متعلق نہیں آیا۔ علی ؓ نے کہا ہمارے رسول ﷺ نے بھی ساری طب کو چند الفاظ میں جمع کردیا ہے فرمایا ہے معدہ مرض کا گھر ہے پرہیز ہر علاج کا سر ہے ہر بدن کو وہی چیز دو جس کا تم نے اس کو عادی بنا دیا ہو طبیب بولا تمہاری کتاب اور تمہارے رسول نے تو جالینوس کے لئے طب چھوڑی ہی نہیں۔
Top