Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے آدم کی اولاد، تم لے لیا کرو اپنی زینت ہر مسجد کے پاس اور کھاؤ، پیو، پر حد سے نہیں بڑھنا، کہ بیشک وہ (وحدہ لاشریک) پسند نہیں کرتا حد سے بڑھنے والوں کو،
38 لباس پہننے کی ہدایت و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اپنی زینت لے لیا کرو ہر مسجد کے پاس۔ یعنی لباس پہن لیا کرو ہر عبادت کے وقت۔ خواہ وہ نماز ہو یا طواف وغیرہ کہ لباس پہننا زینت و آرائش ہے اور ننگا ہونا اس کے برعکس۔ جیسا کہ مشرکین عرب ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ (صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ سو لباس کو زیب تن کرنا فطرت کا تقاضا اور انسان کیلئے زیب وزینت اور عزت و عظمت کا ذریعہ و سبب ہے۔ سو اس ارشاد سے اس رہبانی اور جوگیانہ تصور کی جڑ کاٹ دی گئی جس کے مطابق عریانیت اور ننگے پن کو تقرب الٰہی اور وصول الیٰ اللہ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح کہ جو گی اور راہب لوگوں نے کیا اور کرتے ہیں۔ اور ہندوستان میں جین مت کے لوگ آج بھی سر تا پا ننگے رہتے ہیں۔ اور اسی مرض کی بناء پر بہت سے جاہل مسلمانوں کے اندر " ننگا پیر " کا نام ایسے ننگ دھڑنگ ملنگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور ان کو پیری اور بزرگی کے خاص مرتبہ و مقام پر فائز سمجھا جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اسلام کی نظر میں ایسی عریانیت بےحیائی ہے جو کہ حرام ہے۔ اسی لئے یہاں پر صاف اور صریح طور پر زینت کو اپنانے کا حکم دیا گیا۔ اور دین حنیف کی نظر میں ولایت و بزرگی کا معیار اور اس کا صحیح تصور وہی ہے جو نبی معصوم ۔ (علیہ السلام) ۔ کے اسوئہ حسنہ اور آپ کے صحابہ کرام اور ان کے پیروکاروں کے اسوہ اور طریقہ سے ثابت ہے اور بس۔ اس کے خلاف ہر تصور باطل و مردود ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور پیغمبر کے اسوئہ حسنہ کے مطابق بزرگی کی بنیاد ایمان و اخلاص اور تقویٰ و طہارت ہے اور بس۔
Top