Asrar-ut-Tanzil - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سواری کرو اور بعض کو تم کھاتے ہو
رکوع نمبر 9: آیات 79 تا 85: اسرار و معارف : اللہ وہ ذات کریم ہے جس نے تمہاری خدمت کے لیے کتنی اقسام کے جانور پیدا کردئیے اور تمہیں ان پر یہاں تک اختیار بخشا کہ کسی پر سواری کرتے ہو تو کسی کو ذبح کرکے کھالیتے ہو کبھی ان کی تجارت کرکے اپنے لیے دولت کماتے ہو غرض جو جی میں آئے اپنی سب ضرورتیں پوری کرتے ہو اور تم زمین پر پانی میں ہر جگہ مختلف سواریاں استعمال کرتے ہو یہ سب تو اس کی عظمت کے گواہ ہیں تم بھلا کون کون سی دلیل کا انکار کروگے۔ کیا روئے زمین پر پھر کر نہیں دیکھا کہ پہلی اقوام کا کیا انجام ہوا ان کے چھوڑے ہوئے آثار اور کھنڈرات بتاتے ہیں کہ وہ تم لوگوں سے کہیں زیادہ طاقتور اور مالدار تھے مگر کفر کے باعث جو تباہی آئی اسے ان کی دولت و حشمت ذرہ برابر نہ روک سکی ان کا حال بھی یہی تھا کہ ان کے پاس اللہ کے رسول مبعوث ہوئے تو ان کی پرواہ نہ کی بلکہ اپنے علوم پر اپنے باطل فلسفے پر یا حصول معاش کے ذرائع جن میں وہ کھو گئے تھے ان پر سائنس کی تحقیقات پر ہی ناز کرتے رہے حالانکہ حق یہ تھا کہ یہ علوم عطا کرنے والا بھی تو اللہ ہی تھا مگر وہ اسے اپنا ذاتی کمال جانتے اور تعلیمات باری کا مذاق اڑاتے تھے چناچہ یہی بات ان کے گلے پڑگئی اور تباہ ہوگئے حالانکہ جب عذاب وارد ہوگیا پھر تو کہتے تھے کہ ہم اللہ واحد پہ ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ جن جن کو شریک مانتے تھے سب کا انکار کرتے ہیں مگر جب عذاب وارد ہوگیا تب ان کے ماننے نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ان کا یہ ماننا ان کے لیے کوئی فائدہ مرتب نہ کرسکا کہ اپنے بندوں میں اللہ کا قاعدہ یہی ہے جو انبیاء کے بتانے اور دلائل سے اس کی عظمت کا اقرار نہ کرے پھر دیکھ کر بھلا کون انکار کرسکتا ہے لہذا پھر ایمان قبول نہیں کیا جاتا اور یہاں پہنچ کر کفار کو کفر کے خسارے اور نقصان کا پتہ چلتا ہے۔ سب بات واضح ہوجاتی ہے۔ تمت سورة المومن بحمد اللہ ۔
Top