Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے کہ تم بعض سے سواری کے کام لو اور ان میں سے کچھ تمہاری غذا کے کام آتے ہیں
ربوبیت کی نشانیوں کی طرف اشارہ اوپر کی آیت میں نشانیٔ عذاب کے مطالبہ کی طرف اشارہ گزرا۔ وہاں رسول ﷺ کو یہ اطمینان دلایا تھا کہ اس چیز کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے اس وجہ سے معاملہ اسی کے سپرد کرنا چاہئے۔ اس آیت میں عذاب کی نشانی کا مطالبہ کرنے والوں کی ربوبیت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی کہ عذاب ہی کی کوئی نشانی کیوں مانگتے ہو، خدا کی ربوبیت کی بیشمار نشانیوں پر کیوں نہیں غور کرتے جو تمہارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں ! اس نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے جن میں کچھ تمہاری سواری کے کام آتے ہیں اور بعض سے تم اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے ہو، علاوہ بریں تمہارے دوسرے بہت سے مفاد بھی ان سے وابستہ ہیں۔ ان کو خالق نے ایسا بنایا ہے کہ ان پر سوار ہو کر تم اپنی مہمات کے لئے نکلتے ہو اور اپنے منصوبے بروئے کار لاتے ہو ! یہ اشارہ اونٹ کی طرف ہے جو اہل عرب کے لئے ان کے صحرائی سفینہ کی منزلت میں تھا۔ فرمایا کہ تم اپنے صحرا کے طویل سفروں میں ان پر سوار ہوتے ہو اور اسی طرح سمندر میں کشتیوں سے سفر کرتے ہو ! فرمایا کہ کیا یہ سب خدا کی نشانیاں نہیں ہیں ! آخر کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے ! مطلب یہ ہے کہ غور کرو کہ جس پروردگار نے تمہاری ضروریات کا یہ کچھ اہتمام کیا ہے کیا وہ تمہیں یوں ہی چھوڑے رکھے گا، ان نعمتوں کی بابت تم سے کوئی پرستش نہیں کرے گا ! اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اسی کی وعید تم کو پیغمبر سنا رہا ہے۔ پھر اس کی تکذیب کے لئے یہ کیا بہانہ تم نے تلاش کیا ہے کہ وہ تمہیں کوئی نشانی عذاب نہیں دکھا رہا ہے ! نشانیوں کی کمی تو نہیں ہے لیکن تمہارے پاس نشانیوں کو دیکھنے والی آنکھیں نہیں ہیں۔
Top