Baseerat-e-Quran - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے مویشی ( جانور) بنائے تا کہ تم ان میں سے بعض پر سواری کرسکو اور ان میں سے ( بعض کا گوشت ) کھائو۔
لغات القرآن آیت نمبر 79 تا 85 : الانعام ( مویشی ، جانور) لترکبوا ( تا کہ تم سواری کرو) حاجۃ (ضرورت) تنکرون ( تم انکار کرو گے) ما اغنی (کام نہ آیا) خلت (گزر گئی) سنت اللہ ( اللہ کا قانون ، اللہ کا دستور) تشریح : آیت نمبر 79 تا 85 : سورة مومن کی آخرت آیات میں انسانی زندگی گزارنے کی بہت سی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً غذا ، سواری ، صنعتیں ، سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لے جانے کے اسباب وغیرہ ۔ اگرچہ چیزیں نہ ہوں تو انسان کو اپنی زندگی اور تہذیب و تمدن کے تقاضوں کو پورا کرنا مشکل ہوجائے۔ اللہ نے انسان کو ان بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے جس پر ہر انسان کو ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے لیکن انسان اللہ کی ان نعمتوں پر شکر کے بجائے نافرمانی اور غرور وتکبر کرنے لگتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پھر اللہ ایسی قوموں کو مٹا کر نشان عبرت بنا دیتا ہے۔ اللہ کی بہت سی نعمتوں میں سے طرح طرح کی سواریاں بھی ہیں جو زمانہ کی تبدیلیوں اور تقاضوں کے تخت بدلتی رہتی ہیں مثلاً آجکل کاریں ، ریلیں ، ہوائی جہاز اور کارگو جہاز وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ خود انسان اور اس کی بہتر سی ضروریات کو ان کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے جو ان کی تہذیبی اور تمدنی ترقی کا ذریعہ ہیں لیکن اس سے پہلے دور میں مویشی ہوا کرتے تھے جن پر لوگ سواری بھی کرتے تھے اور وقت ضرورت ان کو کھایا بھی کرتے تھے اور آج بھی جہاں تک یہ ترقیات نہیں پہنچیں وہاں ان مویشوں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن نئی نئی سواریوں کی ایجاد اور سہولتوں نے انسان کی چلت پھرت کو بہت سہل بنا دیا ہے جس سے انسان ساری دنیا میں بڑی سہولتوں سے سفر کرتا ہے۔ بہر حال سواری ، غذا اور مختلف صنعتیں اور نئی نئی ایجادات انسان کے لئے اللہ کی نعمتیں ہیں جن پر انسان ان نعمتوں کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ دین اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ اہل ایمان اسلام کے احکامات کی روشنی میں خوب ترقی کریں ، پھلیں پھولیں لیکن نا شکری نہ کریں کیونکہ یہ چیزیں انسانی ضروریات کی ہیں جن کو استعمال کرنا اور برتنا ممنوع نہیں ہے ۔ لیکن اسلام جن چیزوں سے منع کرتا ہے وہ انسان کی یہ سوچ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی راحتیں اس کے پاس ہمیشہ کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر وہ زمین پر چل پھر کر گزری ہوئی قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ وہ قومیں تہذیب ، تمدن ، معاشرت اور معیشت میں بہت مضبوط تھیں لیکن جب انہوں نے مال و دولت کی کثرت پر اترانا اور غرور کرنا شروع کردیا اور اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا شریک بنا لیا ، انبیا کرام (علیہ السلام) میں سے جس نے بھی ان کو سمجھانے کی کوشش کی انہوں نے نافرمانی کی تب اللہ کا فیصلہ آگیا جس کے سامنے کسی کی طاقت و قوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس طرح نافرمان قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ان کی زندگیوں کو دوسروں کے لئے نشان عبرت بنا دیا ۔ اللہ نے ان قوموں کی قوتوں اور شان دار ترقیات کے باوجود ان کو تباہ و برباد کردیا اب ان قوموں کے آثار یا تو کھنڈرات کی شکل میں ہیں یا زمین کے نیچے یا سمندر کی گہرائیوں میں دبے ہوئے ہیں۔ ان آیات میں اس طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ جب بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے اور انہوں نے اپنی قوموں کو ان کی نافرمانی پر برے انجام سے آگاہ کیا تو انہوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ہر بات کو حقیر سمجھ کر اس کو ٹھکرا دیا اور غرور وتکبر کا طریقہ اختیار کرتے چلے گئے لیکن جب انہوں نے عذاب الٰہی کو آتے دیکھا تو پھر وہ کہنے لگے کہ اب ہم ایمان لاتے ہیں ۔ ایک اللہ کو مانتے اور ہر طرح کے شرک سے توبہ کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اب ان کا ایمان لانا توبہ کرنا اللہ کے ہاں قبول نہیں ہے کیونکہ اللہ کا دستور اور قانون یہ ہے کہ جب عذاب الٰہی سامنے آجائے یا اس کے فرشتے سامنے آجائیں تو پھر یہ مہلت عمل ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے نہ کہ عمل شروع کرنے کا۔ در حقیقت ان آیات میں کفار مکہ سے خاص طور پر اور قیامت تک آنے والی نسلوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ دنیا کی زندگی اور اس کی سہولتوں میں اس طرح مگن نہ ہوجائیں کہ دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگیں بلکہ اس عذاب سے بچنے کی ابھی سے تدبیر کریں جو ان کے برے اعمال کے نتیجے میں ان سے دور نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے اور پھر مہلت عمل نہ مل سکے۔ ان آیات کے ساتھ ہی الحمد للہ سورة المومن کا ترجمہ اور اس کا تشریح تکمیل کو پہنچ گئی۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔۔۔۔
Top