Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے مسلمانو ! اپنے اوپر اللہ کا وہ احسان یاد کرو کہ جب ایک گروہ نے پورا ارادہ کرلیا تھا کہ تم پر ہاتھ بڑھائے تو اللہ نے ایسا کیا کہ اس کے ہاتھ تمہارے خلاف بڑھنے سے روک دیئے اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ ہی ہے جس پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے
ناسازگار حالات کو ساز گار بنادینا اس اللہ کا کام ہے جس کے دست قدرت میں کائنات کا نظام ہے : 59: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کا ذکر کیا ہے جس میں دشمنوں نے نبی اعظم و آخر ﷺ اور اہل اسلام کو مٹا دینے اور قتل و غارت کرنے کے منصوبے بنایے اور تیاریاں کیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا کر انہیں خائب و خاسر کیا جیسا کہ ارشاد ہے کہ ” جب ایک گروہ نے پورا ارادہ کرلیا تھا کہ تم پر ہاتھ بڑھائے تو اللہ نے ایسا کیا کہ اس کے ساتھ تمہارے خلاف بڑھنے سے رک گئے۔ “ اس طرح کے کئی بار ارادے دشمنوں نے کئے جن میں قریش مکہ کے ارادے جو انہوں نے ہجرت سے پہلے کئے ہجرت کے موقعہ پر کئے ہجرت کے بعد کئے۔ آپ (علیہ السلام) ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ایسے ارادے منافقین کے ساتھ مل کر یہود نے کئی بار ایسا اہتمام کیا۔ مضافات مدینہ کے قبائل سے مل کر یہود و نصاری نے اتحاد کر کے ایسی سازشیں کیں۔ اس جگہ کونسی سازش کا ذکر ہے قرآن کریم نے وضاحت نہیں فرمائی اور احادیث وروایات اور تفاسیر میں مختلف واقعات کی طرف اشارے کئے گئے۔ چونکہ اس سے پہلے کی آیات میں ایک خاص احسان کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے جس سے مراد ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات لی ہے اس لئے اسی مناسبت سے ہم اس واقعہ کا ذکر کریں گے جس میں اس احسان خاص یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو یہود نے دھوکا سے قبل کرنے کی سازش کی لیکن جبرئیل (علیہ السلام) کے ذریعہ آپ (علیہ السلام) کو ان کے اس ارادے کی اطلاع دے دی اور آپ (علیہ السلام) بخیریت واپس لوٹ کر مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔ اور اس طرح اللہ نے ان ناسازگار حالات بنا دینے کی طرف رخ پھیر دیا کیونکہ اسی کے دست قدرت میں پوری کائنات کا نظام ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ صحابہ کرام ؓ کے ایک گروہ کا واسط ایک راستہ میں دو آدمیوں سے پڑا۔ صحابہ ؓ نے ان سے تعارف چاہا کہ تم کون ہو انہوں نے تعارف کراتے ہوئے بنی عامر قبیلہ سے تعلق ظاہر کیا جو رسول اللہ ﷺ اور اہل اسلام کا دشمن تھا لیکن حقیقت اس طرح نہ تھی بلکہ وہ دونوں آدمی دراصل بنی سلیم سے تھے اگرچہ بنی سلیم بھی بنی عامر قبیلہ ہی ایک شاخ تھی تاہم بنی سلیم کا معاہدہ امن نبی کریم ﷺ سے ہوچکا تھا ۔ صحابہ کرام ؓ نے جب ان دونوں آدمیوں کو قتل کردیا تو بنی سلیم کے لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس معاہدہ امن کی وجہ سے حاضر ہوئے اور شکایت کی کہ ہمارے دو آدمیوں کو آپ (علیہ السلام) کے صحابہ ؓ نے قتل کردیا لہٰذا ان کا خون بہا ادا کریں۔ واقعہ کی تحقیق کے بعد ان کا خون بہا ادا کرنے کے لئے آپ (علیہ السلام) تیار ہوگئے۔ لیکن ہجرت کئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے بیت المال اور صحابہ کرام ؓ کی جماعت اس حالت میں نہ تھی کہ ان کا خون بہا ادا کرسکتے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ امن یہود کے ساتھ ہوچکا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے اور خون بہا ادا کرنا پڑا تو رقم میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ اس معاہدہ کے تحت رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروق ؓ ، عثمان غنی ؓ ، طلحہ ؓ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کو ساتھ لے کر یہود کے سردار کعب بن اشرف یہودی اور بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے تاکہ دیت ادا کرنے میں معاہدہ کے مطابق ان سے مالی مدد لیں۔ رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کا مطلب سمجھ کر یہودیوں نے کہا ہاں ! ابو القاسم اب وقت آیا ہے کہ تم ہم سے آکر اس معاہدہ کے تحت مدد مانگو ، بیٹھو ، کھاؤ پیو جو ہمارے حصہ کی رقم ہوگی ہم ضرور دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور آپ (علیہ السلام) کے سارھ تشریف لے جانے والے صحابہ کرام بھی۔ یہودیوں نے باہم مشورہ کیا اور ایک دوسرے سے کہا محمد (a) جس طرح آج تمہارے قریب آئے آئندہ جب حالات درست ہوگئے تو اتنا قریب کبھی نہیں آئیں گے۔ اس وقت کوئی ہو کہ اس مکان پر چڑھ کر اوپر سے محمد ﷺ پر ایک بڑا پتھر گرادے جو دراصل اصل چکی کا ایک پاٹ ہے تو ہم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چین نصیب ہوجائے۔ عمر بن حجاش نے کہا کہ یہ عمل میں کروں چناچہ وہ اس بات کو نیچے گرانے کے لئے اوپر گیا لیکن جبرئیل (علیہ السلام) نے آکر اس سارے واقعہ کی اطلاع محمد رسول اللہ ﷺ کو دے دی اور آپ ﷺ فوراً اس جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے اس طرح اللہ نے گویا یہودیوں کے ہاتھ روک لئے اور اس عمل کو نہ کرسکے جس کو وہ اتفاقی حادثہ قرار دینے کی کوشش کرچکے تھے ۔ وہاں سے اٹھتے ہی حضرت علی ؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اگر رفقاء میں سے کوئی شخص تمہارے پاس آکر مجھے دریافت کرے تو کہہ دینا کہ وہ مدینہ تشریف لے گئے ہیں ۔ حضرت علی ؓ نے حکم کی تعمیل کی یہاں تک کہ ایک ایک کر کے سب ساتھی نکل آئے اور رسول اللہ ﷺ کے بعد یکے بعد دیگرے وہ بھی واپس پہنچ گئے چناچہ زیر نظر آیت میں اس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ (یہ واقعہ بغوی نے بیان کیا بروایت مجاہد ، عکرمہ ، کلبی اور ابن بشار) علاوہ ازیں بھی بہت سے واقعات کتب تفسیر میں بیان کئے گئے ہیں حالات کے مطابق سارے واقعات پر یہ آیت چونکہ فٹ ہو سکتی تھی جس نے جس واقعہ کو زیادہ اہم سمجھا اس نے اسی طرف اشارہ کردیا۔ ان سارے واقعات پر بھی یہ آیت فٹ کی جاسکتی ہے اور کسی ایک واقعہ پر بھی کیونکہ مضمون آیت میں کسی ایک واقعہ کو مخصوص نہیں کیا گیا اور یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مخالفین نے بار بار یہ کوشش کی کہ کسی داؤ میں لا کر اس تحریک اور اس کے بانی اعظم ﷺ کو راستہ سے ہٹا دیا جائے لیکن جس کو اللہ رکھے اسے کون چکھے پھر حقیقت یہ ہے کہ یہ انعام اس وقت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس نصرت و امداد اور غیبی حفاظت کا اصل سبب تقویٰ اور توکل ہے جو قوم یا جو شخص جس زمانہ اور جس مکان میں ان دو وصفوں کو اختیار کرے گا اس کی بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت وحمایت ہوگی۔ کسی نے کیا ہی خوب کیا ہے۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو - اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی مسلمان اللہ کے بھروسہ پر اٹھ کھڑے ہوں تو نصرت الٰہی اب بھی تیار کھڑی ہے : 60: دست وباز سے اپنی ہمت کے مطابق کام لینا اور فکر و تدبیر کو استعمال کرنا ، احکام خداوندی میں سے ایک نہایت اہم اور ضروری حکم ہے اس حکم کی بجا آوری کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھنا اور جس کام کے لئے قدم اٹھا لیا جائے اس پر نیک نیتی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے ہر حال میں اسکو پورا کرنے کی جدوجہد کرنے کا نام نصرت الٰہی کی طلب ہے اور اس طرح جب بھی کسی قوم نے مغفرت طلب کی ہے اللہ نے اس کی مدد کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی طلب وہی کرے گا جس کے دل میں ایمان کی طاقت و قوت موجود ہوگی اور جس دل میں ایمان کی طاقت و قوت موجود ہو یینا ایک مومن و مسلمان کا دل ہے۔ اس ایمان قوت کے ساتھ آج بھی مسلمان اللہ سے نصرت طلب کریں تو یقینا وہ نصرت الٰہی کو تیار کھڑا پائیں گے۔ اسلام انسان کو پست ہمتی اور تعطل کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا بلکہ وہ اسے سرگرم عمل رکھنا چاہتا ہے لیکن وقتی طور پر نہیں برابر تاحین حیات لیکن ساتھ ہی وہ اس کا بھی روادار نہیں کہ انسان خود پرستی کی لعنت میں مبتلاہو جائے۔ وہ تعلیم باربار اس کی دیتا ہے کہ نظر اسباب سے بڑھ کر سبب الاسباب پر رکھنا چاہئے ۔ اس نے پہلے بھی بگڑے کام بنائے تھے اور اس کی ذات کا سارا آخرت تک قائم ہے اور یہی بات اس جگہ بھی فرمائی گئی کہ ” اللہ ہی ہے جس پر مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہئے۔ “ اب یہاں سے سلسلہ بیان کا رخ اہل کتاب کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ ان کے حالات سے مسلمان عبرت حاصل کریں۔
Top