Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 110
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
لَا يَزَالُ : ہمیشہ رہے گی بُنْيَانُھُمُ : ان کی عمارت الَّذِيْ : جو کہ بَنَوْا : بنیاد رکھی رِيْبَةً : شک فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلَّآ : مگر اَنْ تَقَطَّعَ : یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں قُلُوْبُھُمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ، ہمیشہ ان کے دلوں میں بےیقینی کی جڑ بنی رہے گی (جس کے نکلنے کی اب کوئی صورت نہیں) بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہوجائیں۔ اللہ نہایت باخبر اور حکیم ودانا ہے۔
لا یزال بینانھم الذی بنوا ریبۃ فی قلوبھم وہ عمارت جو انہوں نے بنائی ‘ ہمیشہ ان کے دلوں میں (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی۔ ریبۃً سے مراد ہے : شک و نفاق ‘ یعنی یہ عمارت ان کے دلوں میں شک و نفاق کے ترقی کرنے کا سبب بنی رہے گی اور وہ برابر یہی خیال کرتے رہیں گے کہ ہم نے یہ بھلائی کا کام کیا ‘ جیسے حضرت موسیٰ کی قوم کے دلوں میں بچھڑے کی محبت رچ گئی تھی (اسی طرح اس مسجد ضرار کی محبت ان منافقوں کے دلوں میں جم گئی ہے) حضرت ابن عباس نے یہی تفسیر فرمائی ہے۔ کلبی نے ریبۃً کا ترجمہ کیا : حسرت و پشیمانی ‘ کیونکہ ان لوگوں کو اس مسجد کی تعمیر پر پشیمانی ہوگئی تھی۔ سدی نے ریبۃً کا معنی کیا : غیظاً ‘ یعنی اس عمارت کو ڈھا دینا ہمیشہ ان کے دلوں کے اندر غصہ اور غضب کو بھڑکاتا رہے گا۔ الا ان تقطع قلوبھم ہاں ان کے دل پارہ پارہ ہوجائیں (تو شک و نفاق ان کے دلوں سے ختم ہوجائے گا) یعنی نفاق برابر ہر وقت ان کے دلوں میں جما رہے گا ‘ مگر اس وقت ختم ہوگا کہ ان کے دل ہی پھٹ جائیں اور ایسا وقت آجائے کہ ان کے دلوں میں جاننے کی صلاحیت ہی نہ رہے۔ بعض علماء نے کہا : دلوں کے پارہ پارہ ہونے سے مراد ہے : منافقوں کا قتل ہونا ‘ یا قبر میں چلا جانا ‘ یا دوزخ میں پہنچ جانا۔ ضحاک اور قتادہ نے کہا : مرتے دم تک یہ شک میں پڑے رہیں گے ‘ مر جائیں گے تو شک دور ہوگا اور حقیقت کا یقین ہوگا۔ وا اللہ علیم حکیم۔ اور اللہ (ان کی نیتوں کو) جاننے والا ہے (اور مسجد ضرار کو گرا دینے کا جو حکم اس نے دیا ‘ اس کی مصلحت سے واقف ہے) ۔ اہل سیر نے بیان کیا ہے کہ بعثت کے گیا رھویں سال حج کے زمانہ میں رسول اللہ (ﷺ) باہر نکلے ‘ یعنی مکہ سے برآمد ہوئے اور قبائل عرب پر اپنی نبوت پیش کی۔ ایک روز گھاٹی کے پاس تھے کہ قبیلۂ خزرج کی ایک جماعت سے ملاقات ہوگئی۔ حضور (ﷺ) نے پوچھا : آپ لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : خزرج کے لوگ ہیں۔ فرمایا : کیا (کچھ دیر) بیٹھ سکتے ہو ‘ میں تم سے کچھ بات کروں گا۔ خزرجیوں نے جواب دیا : بیشک۔ چناچہ حضور (ﷺ) کے ساتھ سب بیٹھ گئے۔ آپ نے ان کو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی ‘ اسلام پیش کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ اللہ کی قدرت کہ یہودی ان لوگوں کے ساتھ ان بستیوں میں رہتے تھے اور اہل کتاب تھے۔ اوس و خررج تعداد میں یہودیوں سے زائد تھے مگر سب بت پرست تھے۔ یہودیوں سے جب ان لوگوں کا کچھ جھگڑا ہوا تھا تو یہودی کہتے تھے : ایک نبی کی بعثت اب ہونے ہی والی ہے ‘ اس کی بعثت کا زمانہ قریب آپہنچا ہے۔ ہم اس کے ساتھ مل کر تم کو قتل کریں گے۔ جب رسول اللہ (ﷺ) نے ان لوگوں سے بات کی تو وہ آپ کے اوصاف کو پہچان گئے (کیونکہ یہودیوں کی زبانی آنے والے پیغمبر کے اوصاف کا ان کو علم پہلے ہی سے تھا) اور آپس میں کہنے لگے : دیکھو ! یہودی ان کے پاس تم سے پہلے نہ پہنچنے پائیں۔ چناچہ سب نے رسول اللہ (ﷺ) کی دعوت کو قبول کرلیا اور قبیلۂ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوگئے : اسعد بن زرارہ ‘ عوف بن حارث جن کی والدہ کا نام عفراء تھا ‘ رافع بن مالک ‘ قطبہ بن عامر بن جدیدہ ‘ عقبہ بن عامر بن نابی ‘ جابر بن عبد اللہ بن رباب۔ بعض روایات میں جابر کی جگہ عبادہ بن صامت کا نام آیا ہے۔ بعض نے سات آدمیوں کے مسلمان ہونے کی صراحت کی ہے ‘ گویا جابر اور عبادہ دونوں کو جمع کیا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : کیا تم میری پشت پناہی کرو گے کہ میں اپنے رب کا پیام پہنچا سکوں۔ ان لوگوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ (ﷺ) ! ) پچھلے سال ہی جنگ بعاث ہمارے آپس میں ہوچکی ہے ‘ اس روز ہم نے آپس میں خوب کشت و خون کیا تھا ۔ اگر ایسی حالت میں آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں گے تو ہماری پوری جماعت آپ کے ساتھ نہ ہو سکے گی۔ اب تو آپ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم لوگ اپنے قبائل میں لوٹ کر چلے جائیں ‘ ممکن ہے کہ اللہ ہماری باہم صلح کرا دے اور ہم ان لوگوں کو اسی چیز کی دعوت دیں جس چیز کی طرف آپ نے ہم کو بلایا ہے۔ امید ہے کہ اس وقت اللہ سب کو آپ کی حمایت کرنے پر متفق کر دے گا اور اگر سب آپ کے پیرو ہوگئے تو پھر کوئی آپ کے خلاف نہ جائے گا۔ آئندہ سال حج کے زمانہ میں ہم آپ سے پھر ملیں گے۔ اس گفتگو کے بعد یہ حضرات مدینہ کو لوٹ گئے اور مدینہ کو واپس ہونے کے بعد انصاریوں کے ہر گھر میں رسول اللہ (ﷺ) کا تذکرہ پھیل گیا ‘ کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں آپ کا ذکر نہ ہوتا۔ پھر اگلے سال یعنی بعثت کے بارہویں برس بارہ یا گیارہ آدمیوں نے آ کر گھاٹی میں رسول اللہ (ﷺ) سے ملاقات کی۔ یہ گھاٹی دوسری گھاٹی تھی۔ ان بارہ میں پانچ تو جابر کے علاوہ وہی تھے جن کا ذکر اوپر کردیا گیا ہے اور سات یہ تھے : عوف بن حارث کا بھائی معاذ بن حارث ‘ ذکوان ‘ عبادہ بن صامت ‘ یزید بن ثعلبہ ‘ عباس بن عبادہ بن فضلہ۔ یہ پانچوں خزرجی تھے اور دو شخص قبیلۂ اوس کے تھے : بنی الاشہل کا ابو الہثیم بن تیہان اور عویمر بن ساعدہ۔ سورة ممتحنہ میں) عورتوں کی بیعت کی جو تفصیل مذکور ہے ‘ اسی اقرار کے ساتھ ان سب نے بیعت کی یعنی یہ کہا کہ ہم شرک نہیں کریں گے ‘ چوری نہیں کریں گے الخ۔ جب سب مسلمان ہوگئے تو مدینہ کو لوٹ گئے۔ مدینہ پہنچ کر اسعد بن زرارہ ان تمام لوگوں کو مدینہ میں جمع کرنے لگے جو مسلمان ہوتے گئے۔ قبائل اوس و خزرج نے رسول اللہ (ﷺ) کو عرضداشت بھیجی کہ اب کوئی ایسا آدمی ہمارے پاس بھیج دیجئے جو ہم کو قرآن پڑھا دے۔ حضور (ﷺ) نے حضرت مصعب بن عمیر کو بھیج دیا۔ اس وقت تک مدینہ میں چالیس مسلمان تھے ‘ حضرت مصعب کی کوشش سے بہت لوگ مسلمان ہوگئے۔ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر بھی مسلمان ہوگئے اور ان دونوں بزرگوں کے مسلمان ہونے سے بنی عبدالاشہل کے تمام آدمی کیا مرد کیا عورتیں ‘ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ پھر بعثت کے تیرہویں سال تیسری گھاٹی کے موقع پر ایام تشریق میں مدینہ والے حاضر ہوئے اور ستر یا تہتر مردوں اور دو عورتوں نے بیعت کی۔ حاکم نے پچھتر آدمی ہونے کی صراحت کی ہے۔ ابن جریر نے بروایت محمد بن کعب قرظی ‘ نیز بغوی نے ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ بن رواحہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! آپ جو چاہیں اپنے رب کے اور اپنے لئے ہم سے شرطیں لے لیجئے (ہم سب کچھ ماننے کو تیار ہیں) حضور (ﷺ) نے فرمایا : میں اپنے رب کے متعلق تو یہ شرط پیش کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرنا ‘ کسی چیز کو اس کا شریک نہ قرار دینا (یعنی کسی چیز کی پوجا نہ کرنا) اور اپنے لئے یہ شرط پیش کرتا ہوں کہ جس چیز سے تم اپنی جانوں اور مالوں کی حفاظت کرو ‘ اس سے میری بھی حفاظت کرنا (یعنی اپنی جان و مال کی طرح میری حفاظت کرنا) انصار نے کہا : اگر ہم نے ایسا کرلیا تو ہم کو کیا ملے گا ؟ فرمایا : جنت۔ انصار نے کہا : یہ نفع کا سودا ہے ‘ اب ہم اس سودے کو نہ پھیریں گے نہ پھیرنے دیں گے (یا نہ پھیرنے کی خواہش کریں گے) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top