Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 110
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
لَا يَزَالُ : ہمیشہ رہے گی بُنْيَانُھُمُ : ان کی عمارت الَّذِيْ : جو کہ بَنَوْا : بنیاد رکھی رِيْبَةً : شک فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلَّآ : مگر اَنْ تَقَطَّعَ : یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں قُلُوْبُھُمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے یقینی کی جڑ بنی رہے گی( جس کے نکلنے کی اب کوئی صورت نہیں) بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہو جائیں۔105 اللہ نہایت با خبر اور حکیم و دانا ہے
سورة التَّوْبَة 105 یعنی ان لوگوں کو منافقانہ مکر و دغا کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر کے اپنے دلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایمان کی صلاحیت سے محروم کرلیا ہے اور بےایمانی کا روگ اس طرح ان کے دلوں کے ریشے ریشے میں پیوست ہوگیا ہے کہ جب تک ان کے دل باقی ہیں یہ روگ بھی ان میں موجود رہے گا۔ خدا سے کفر کرنے لیے جو شخص علانیہ بت خانہ بنائے، یا اس کے دین سے لڑنے کے لیے کھلم کھلا مورچے اور دمدمے تیار کرے، اس کی ہدایت تو کسی نہ کسی وقت ممکن ہے، کیونکہ اس کے اندر راستبازی، اخلاص اور اخلاقی جرأت کا وہ جوہر تو بنیادی طور پر محفوظ رہتا ہے جو حق پرستی کے لیے بھی اسی طرح کام آسکتا ہے جس طرح باطل پرستی کے کام آتا ہے۔ لیکن جو بزدل جھوٹا اور مکار انسان کفر کے لیے مسجد بنائے اور خدا کے دین سے لڑنے کے لیے خدا پرستی کا پرفریب لبادہ اوڑھے، اس کی سیرت کو تو نفاق کی دیمک کھا چکی ہوتی ہے۔ اس میں یہ طاقت ہی کہاں باقی رہ سکتی ہے کہ مخلصانہ ایمان کا بوجھ سہار سکے۔
Top