Al-Qurtubi - At-Tawba : 110
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
لَا يَزَالُ : ہمیشہ رہے گی بُنْيَانُھُمُ : ان کی عمارت الَّذِيْ : جو کہ بَنَوْا : بنیاد رکھی رِيْبَةً : شک فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلَّآ : مگر اَنْ تَقَطَّعَ : یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں قُلُوْبُھُمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں (موجب) خلجان رہے گی (اور ان کو متردد رکھے گی) مگر یہ کہ انکے دل پاش پاش ہوجائیں اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔
آیت نمبر : 110۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لا یزال بنیانھم الذی بنوا “۔ اس میں عمارت سے مراد مسجد ضرار ہے۔ (آیت) ” ریبۃ “ یعنی ان کے دلوں میں شک اور نفاق رہے گا۔ (2) (تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 41) یہ حضرت ابن عباس ؓ حضرت قتادہ (رح) اور حضرت ضحاک رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا ہے۔ اور نابغہ نے کہا ہے : حلفت فلم اترک لنفسک ریبۃ ولیس وراء اللہ للمرء مذھب : میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے تیری ذات کے لیے کوئی شک نہیں چھوڑا اور اللہ تعالیٰ کے سوا آدمی کے لیے کوئی اور مذہب نہیں۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : اس سے مراد حسرت اور ندامت ہے، کیونکہ وہ اسے بنانے پر نادم ہوئے۔ اور سدی (رح) نے کہا ہے اور اسی طرح حبیب اور مبرد نے بھی کہ ریبۃ سے مراد شدید غیظ وغضب ہے۔ (آیت) ” الا ان تقطع قلوبھم “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : یعنی ان کے دل پھٹ جائیں اور وہ مر جائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے : (آیت) ” لقطعنا منہ الوتین “۔ (الحاقۃ) (پھر ہم کاٹ دیتے اس کی رگ دل) کیونکہ رگ دل کٹ جانے کے سبب زندگی ختم ہوجاتی ہے، اور یہ حضرت قتادہ (رح) ضحاک اور مجاہد رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا ہے، اور حضرت سفیان نے کہا ہے : مگر یہ کہ وہ توبہ کرلیں۔ اور عکرمہ نے کہا ہے : مگر یہ کہ ان کے دل ان کے قبروں میں پارہ پارہ ہوجائیں اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے اصحاب یہ قرات کرتے تھے : ریبۃ فی قلوبھم ولو قطعت قلوبھم (3) (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 405) (ان کے دلوں میں کھٹکا رہے گا اگرچہ ان کے دل کٹ جائیں) حسن، یعقوب اور ابو حاتم نے غایت کی بنا پر الی ان تقطع پڑھا ہے۔ یعنی وہ اس کی وجہ سے مسلسل شک میں رہیں گے یہاں تک کہ وہ مرجائیں اور انہیں یقین حاصل ہوجائے اور سب واضح ہوجائے، قراء نے قول باری تعالیٰ : (آیت) ” تقطع “۔ میں اختلاف کیا ہے پس جمہور نے تقطع تا کے ضمہ، قاف کے فتحہ اور طا کے شد کے ساتھ فعل مجہول کی صورت میں پڑھا ہے۔ ابن عامر حمزہ، حفص اور یعقوب نے بھی اسی طرح پڑھا ہے مگر انہوں نے تا کو فتحہ دیا ہے، اور یعقوب اور ابو عبدالرحمن سے تقطع فعل مجہول قاف کی تخفیف کے ساتھ بھی مروی ہے، اور شہل اور ابن کثیر سے تقطع قاف کی تخفیف کے ساتھ مروی ہے : (آیت) ” قلوبھم “۔ یہ منصوب ہے، یعنی تم ان کے ساتھ ایسا کرو۔ تحقیق ہم نے حضرت عبداللہ ؓ کے اصحاب کی قرات ذکر کی ہے۔ (آیت) ” واللہ علیم حکیم “۔ (اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے) یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top