Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مومنوں کو نہ چاہیے کہ مومنوں کے ہوتے ہوئے کافروں کو (اپنا) دوست بنائیں،68 ۔ اور جو کوئی ایسا کرے گا تو وہ اللہ کے ہاں کسی شمار میں نہیں،69 ۔ مگر ہاں ایسی صورت میں کہ تم ان سے کچھ اندیشہ (ضرر کا) رکھتے ہو،70 ۔ اور اللہ تم کو اپنے سے ڈراتا ہے،71 ۔ اور اللہ ہی کی طرف آنا ہے،72 ۔
68 ۔ (کیا ظاہر میں اور کیا باطن میں) جسے دوستی کا علاقہ کہتے ہیں وہ ایک کیفیت قلب اور پھر عملی برتاوے کا نام ہے۔ مسلمانوں کو، کافروں، منکروں، اللہ کے باغیوں کے ساتھ یہ تعلق قائم کرنے کی قطعی ممانعت ہے اور عقلا بھی یہ ملی خود داری اور قومی تشخص کے بالکل منافی ہے۔ (آیت) ” من دون ال مومنین “۔ یعنی نہ مومنین کو چھوڑ کر اور نہ مومنین کے شمول میں۔ ای من غیر المومنین (کبیر) ای متجاوزین المومنین الی الکافرین استقلا اواشتراکا (روح) بعض اہل حق نے یہیں سے تمسک کرکے اپنے مریدوں، معتقدوں، شاگردوں کو منکروں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کردیا ہے۔ 69 ۔ یعنی دشمنان خدا کے ساتھ دوستی رکھنے والے کی دوستی اللہ کے ساتھ کسی درجہ میں بھی معتبر ومقبول نہیں۔ (آیت) ” لیس من اللہ فی شیء۔ من اللہ “۔ سے مراد من دین اللہ یامن ولایۃ اللہ سمجھی گئی ہے۔ اے من ولایتہ فی شیء (بیضاوی) اے لیس من دین اللہ فی شیء (معالم) 70 ۔ (بس رفع ضرر کے لئے بہ قدر ضرورت ظاہری تعلقات دوستانہ کی اجازت ہے) کافروں کے ساتھ حسن سلوک کی تین ہی ممکن صورتیں ہیں :۔ ( 1) موالات یا دوستی۔ (2) مدارات یا ظاہری خوش خلقی وخاطر داری۔ (3) مواسات، یا احسان ونفع رسانی۔ اپنے علماء شریعت کی تحقیق ہے کہ شق اول یعنی موالات یا حقیقی دوستی تو کس حال میں جائز نہیں۔ شق سوم بھی زیادہ دشوار نہیں۔ مواسات اہل حرب کے ساتھ ناجائز ہے۔ غیر اہل حرب کے ساتھ جائز ہے رہی شق دوم، سو وہ تفصیل طلب ہے، مدارات تین حالتوں میں درست ہے۔ 1 ۔ ایک اپنے رفع ضرر کے لئے۔ 2 ۔ دوسرے خود اس کافر کی مصلحت دینی ہو۔ یعنی توقع ہدایت کے موقع پر۔ 3 ۔ تیسرے اکرام ضیف کے طور پر۔ یعنی کافر جب مہمان ہو اس وقت کیلئے۔ بس ان تینوں صورتوں کے سوا اپنے نفع یا حصول مال وجاہ کے لئے مدارات درست نہیں۔ بلکہ جب اس سے ضرر دین کا اندیشہ ہو تو یہ اختلاط بدرجہ اولی حرام ہوگا۔ (آیت) ’ تتقوا منھم تقۃ “۔ یہ لحاظ رہے کہ آیت میں ذکر اندیشہ کا ہے، محض تو ہم یا احتمال بعید اس کے لئے کافی نہیں اور ضرر بھی جس کا اندیشہ کیا جائے معتدبہ ہونا چاہیے۔ التقۃ لا تحل الا مع خوف القتل اوالقطع اوالا یذاء العظیم (قرطبی) یعنی ان تخافوا تلف النفس اوبعض الاعضاء وھذا ھو ظاہر ما یقتضیہ اللفظ وعلیہ الجمھور (جصاص) آیت میں ایک طرف رد ہے۔ فرقہ شیعہ کا۔ جس نے تقیہ کے حدود بہت وسیع کرکے اسے اپنے مذہب کا ایک جزء بنالیا ہے اور دوسری طرف فرقہ خوارج کا۔ جس نے جواز تقیہ سے سرے سے انکار کردیا ہے۔ عدل و اعتدال کا مسلک افراط وتفریط دونوں سے یکساں بچ کر اہل سنت کا ہے۔ صاحب روح المعانی نے اس ذیل میں ماشاء اللہ بہت خوب لکھا ہے۔ 71 ۔ (کہ حقیقۃ صاحب اقتدار وقابل عظمت صرف وہی ہے) (آیت) ” نفسہ “۔ مراد یہ سمجھی گئی ہے کہ اللہ اپنے عذاب سے تم کو ڈراتا ہے۔ المعنی یحذرکم اللہ عقابہ (قرطبی) 72 ۔ (سو اس کے احکام کی ظاہری، باطنی ہر مخالفت سے باز رہو) خطاب عامۃ الناس سے رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے ہے۔
Top