Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
اور ہر ایک فرقے کیلئے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرتا ہے اور نہ ایک گھڑی جلدی کرتا ہے۔
وَلِکلّ امۃ اَجَلٌ، ہر قوم کیلئے مہلت کی مدت مقرر ہے، یہ مہلت ہر فرد و قوم کو ملتی ہے اور یہ مہلت آزمائش کے طور پر عطا کی جاتی ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بغاوت و سرکشی میں مزید اضافہ ہوتا ہے یہ مہلت بعض کو پوری زندگی کیلئے ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ پوری زندگی میں اس کی گرفت نہیں فرماتے، بلکہ آخرت ہی میں مواخذہ فرماتے ہیں اس کی اجل سمیٰ قیامت کا دن ہے اور جس کو وہ دنیا ہی میں عذاب سے دوچار کردیتا ہے ان کو اجل مسمّٰی وہ ہے جب ان کا مؤاخذہ فرماتا ہے۔ قوم کی مدت مہلت مقرر کئے جانے کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ہر قوم کیلئے برسوں اور مہینوں اور دنوں کے لحاظ سے ایک عمر مقرر کی جاتی ہو اور اس عمر کے تمام ہوتے ہی اس قوم کو لازماً ختم کردیا جاتا ہو، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر قوم کو دنیا میں کام کرنے کا جو موقع دیا جاتا ہے اس کی ایک اخلاقی حد مقرر کردی جاتی ہے بایں معنی کہ اس کے اعمال میں خیر شر کا کم سے کم کتنا تناسب برداشت کیا جاسکتا ہے جب تک قوم کی بری صفات اس کی اچھی صفات کے مقابلہ میں تناسب کی اس آخری حد سے فروتر رہتی ہیں اس وقت تک اس کی تمام برائیوں کے باوجود مہلت دی جاتی رہتی ہے اور جب وہ اس حد اے گزر جاتی ہیں تو پھر اس بدکار اور بد صفات قوم کو مزید مہلت نہیں دی جاتی۔
Top