Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے، پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم بھی نہیں ہوتی
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ [ اور ہر ایک امت کیلئے ] اَجَلٌ ۚ [ ایک وقت ہے ] فَاِذَا [ پھر جب ] جَاۗءَ [ آجائے ] اَجَلُهُمْ [ ان کا وقت ] لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ [ تو وہ لوگ پیچھے نہیں ہوں گے ] سَاعَةً [ ایک گھڑی (یعنی لمحہ بھر بھی )] وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ [ اور نہ ہی آگے ہوں گے ] نوٹ ۔ 3: یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ افراد اور اقوام کے معاملہ میں اللہ نے ” اجل “ کے پیمانے الگ الگ رکھے ہیں ۔ افراد کے پیمانے تو سالوں ، مہینوں ، دنوں ، گھنٹوں ، اور منٹوں کے حساب سے پورے ہوتے ہیں ۔ جب وہ پورے ہوجاتے ہیں ، تو فرد ختم ہوجاتا ہے ۔ جبکہ قوموں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان کا حساب ان کے اخلاقی زوال سے ہوتا ہے ۔ اخلاقی زوال کی ایک خاص حد ہے۔ کوئی قوم جب گرتے گرتے اس حد کو پہنچ جاتی ہے تو اس کا سفینہ غرق ہوجاتا ہے۔ جس طرح افراد کی موت کا وقت اللہ کے سوا کسی کو نہیں معلوم ، اسی طرح قوموں کے فنا ہونے کے وقت کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ (تدبر القرآن ) البتہ کسی فرد کے بالوں کی سفیدی ، اعضاء کی کمزوری ، چہرے کی جھریاں وغیرہ ایسی علامات ہیں جن کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس فرد کا وقت اب قریب آلگا ہے ۔ اسی طرح قوموں کی اخلاقی گراوٹ کی کچھ علامات ہیں جنہیں دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس قوم کے دن اب گنے جا چکے ہیں ۔ ایسی علامات کے ظہور کی ابتداء عموما اس وقت ہوتی ہے جب وہ قوم فوجی سازوسامان اور طاقت کے اس درجہ پر پہنچ جاتی ہے جہاں اس دنیا میں اس کا کوئی مد مقابل باقی نہیں رہتا اور اسے نظر آتا ہے کہ اب وہ جو چاہے کرے ، اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے ۔ (سورۃ العلق ، آیات 6 ۔ 7) پھر طاقت کے نشے میں اسے ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے ۔ مجنون نظر آتی ہے ، لیلی نظر آتا ہے ۔ پھر وہ ایسی اخلاقی اقدار کو اپنے پاؤں تلے روندنا شروع کرتی ہے جن کی کبھی وہ خود علمبردار تھی پھر وہ صرف دھاندلی نہیں کرتی بلکہ پوری ڈھٹائی اور بےحیائی سے کرتی ہے اور اسے اپاہج سمجھتی ہے ۔ اخلاقی گراوٹ کی یہ پستی اس کے سفینے میں سوراخ کرتی رہتی ہے اور وہ قوم اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودتی رہتی ہے۔ مثلا موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے فرعون کے دربار میں مطالبہ کیا تھا کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دو اور ان کو عذاب دینے کا سلسلہ ختم کردو ۔ (سورہ طہ ۔ آیت ۔ 47) اس وجہ سے فرعون نے ان پر جادوگر ہونے ، آجکل کی اصطلاح میں دہشت گرد ہونے کا الزام لگایا اور اپنی قوم کو بتایا کہ یہ دونوں چاہتے ہیں کہ تم لوگوں کو تمہاری زمین سے نکال دیں اور تمہاری بےمثال تہذیب و تمدن کا ستیاناس کردیں ۔ (سورہ طہ ۔ آیت ۔ 63) ۔ حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) اس سرزمین سے بنی اسرائیل کو نکال کرلے جانا چاہتے تھے اور اس کے بعد فرعونیوں کی تہذیب سے ان کا کوئی واسطہ نہ رہتا اس طرح معمولی سمجھ بوجھ کا ہر آدمی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ فرعون کا الزام کتنا بےبنیاد اور کیسی دھاندلی پر مبنی تھا ۔ لیکن طاقت کے نشہ کا یہ عالم تھا کہ قوم نے اس الزام کو درست تسلیم کیا ۔ اخلاقی گراوٹ کی یہ وہ حد ہے جسے عبور کرنے کے بعد وہ قوم اس زمین پر ایک قوم کی حیثیت سے رہنے کے حق سے محروم ہوگئی اور انہوں نے اپنی بےمثال تہذیب کو اپنے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ۔ فاعتبروا یا ولی الابصار ۔
Top