Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
ہر قوم کے لئے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے ‘ پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر وتقدیم بھی نہیں ہوتی ۔
آیت ” نمبر 34۔ اسلامی تصورحیات کا یہ ایک اساسی عقیدہ ہے۔ اور قرآن کریم بار بار غافل اور ناشکرے دلووں کے اندر اس کا جگاتا رہتا ہے تاکہ وہ اپنی اس زندگی اور اس کی محدود مہلت کو دائمی نہ سمجھ لیں اور سرکشی اختیار نہ کریں ۔ یہاں اس مہلت سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آج کی نسل انسانی کے لئے طبیعی زندگی کی ایک حد ہے اور اس سے مراد ملت اور تہذیب کی عمر طبیعی بھی ہو سکتی ہے ۔ جس میں اس کے اقتدار اعلی اور دنیا میں اس کی برتری کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ مراد کسی نسل کی عمر طبیعی ہو یا کسی ملت کی عمر طبیعی ہو ‘ بہرحال جب مہلت ختم ہو تو اس کے بعد ان کا زندہ رہنا مقتدر اعلی رہنا ممکن نہیں ہوتا ۔ ۔ یہاں بحث کے خاتمہ سے پہلے ایک عجیب نکتے پر اظہار خیال ضروری ہے۔ سورة انعام اور سورة اعراف میں جاہلیت کے زاوے سے نذر ونیاز ‘ حلال و حرام کے تعین کے مسائل پر قرآن نے جو منہاج بحث اختیار کیا اور مسائل لباس اور خوراک اور کھانوں کے مسائل پر جو بحث کی گئی اس میں ایک عجیب مماثلت پائی جاتی ہے ۔ وہاں ذبیحوں ‘ نذر ونیاز ‘ مویشیوں اور کھانوں پر بحث کا آغاز اس طرح کیا گیا کہ سب سے پہلے اس صورت حالات کو سامنے لایا گیا جو عملا موجود تھی اور کہا گیا کہ یہ اللہ پر افتراء ہے کہ اس صورت حالات کو منجانب اللہ شریعت سے تعبیر کیا جائے ۔ اس کے بعد کہا گیا کہ تم اس پر کوئی دلیل پیش کرو اگر تمہارے اس کوئی سند ہے تو ۔ کہا گیا ۔ آیت ” ام کنتم شھدا اذ وصکم اللہ بھذا “۔ کہ جب اللہ نے یہ شریعت بنائی اور تمہیں تلقین کی کہ اس پر عمل کرو کیا تم خود اس وقت موجود تھے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بولے اور جھوٹ اس لئے بولے کہ لوگوں کو بغیر علم کے وہ گمراہ کرے ‘ ایسا شخص ظالم ہے اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ اس کے بعد بیان یوں آگے بڑھا کہ کفار نے کہا کہ وہ جو شرک کر رہے ہیں وہ امر الہی کے نتیجے میں ہے ‘ اگر اللہ نہ چاہتا تو ایسا نہ ہوتا آیت ” سیقول الذین اشرکوا۔۔۔۔۔۔۔۔ ) وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا ہے وہ یہ کہیں گے کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے آباء کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرتے ۔ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا ۔ اے پیغمبر ان سے کہہ دو کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے کہ تم اسے ہمارے لئے نکال لاؤ ‘ تم تو ماسوائے ظن وتخمین کے کسی اور چیز کی پیروی نہیں کر رہے ہو ‘ بلکہ تم اپنی جانب سے باتیں گھڑتے ہو ‘ کہہ دو اللہ ہی کے پاس حجت بالغہ ہے ۔ اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ کہہ دو ‘ لاؤ اپنے گواہوں کو جو یہ شہادت دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اے پیغمبر اگر کوئی گواہ یہ شہادت دے بھی تو تم اس کے ساتھ شہادت نہ دو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو برابر قرار دیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہاں ان کے ان مزعومات اور مفتریات کو مضحکہ خیز بتایا گیا اور کہا گیا کہ آؤ ‘ ہم تمہیں بتائیں کہ اللہ کی جانب سے کیا حرام ہے ‘ کیونکہ حلال و حرام کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ اور وہی کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دے سکتا ہے ۔ فرمایا آیت ” قل تعالواـ۔۔۔۔۔۔ “۔ کہہ دو آؤ میں تمہیں سناؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا حرام کیا ہے ؟ یہ کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔ “۔ یہاں بھی اسی منہاج بحث کو اختیار کیا گیا ہے ۔ وہی مدارج بیان یہاں بھی ہیں ۔ پہلے ان کی صورت حالات کو پیش کیا گیا کہ وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور از خود حلال و حرام کے حدود مقرر کرتے ہیں ‘ خصوصا لباس اور کھانوں کے معاملات میں ۔ پھر انہیں تنبیہ کی گئی کہ وہ فحاشی اور شرک جیسے خطرناک گناہوں میں مبتلا ہیں اور ان کے سامنے یہ حقیقت رکھی گئی کہ شیطان نے جنت میں کس طرح تمہارے باپ کو بےلباس کیا اور پھر یہ کہا گیا کہ لباس ستر اور لباس زینت تمہارے لئے اتارا گیا ہے اور یہ رب کی نعمت ہے ۔ اس کے بعدان کو یہ تنبیہ کی گئی کہ تمہارا یہ دعوی غلط ہے کہ یہ حلال و حرام جس پر تم عمل پیرا ہو یہ اللہ نے مقرر کئے ہوئے ہیں اور اللہ کی شریعت ہیں ۔ آیت ” قل من حرم زینۃ اللہ “۔ ” کہہ دیجئے کہ اللہ نے اپنے بندوں کے لئے جو زینت پیدا کی ہے اسے کس نے حرام قرار دیا ہے ؟ اور پھر پاکیزہ رزق ۔۔۔۔۔ کہہ دیجئے یہ دنیا کی زندگی میں ان لوگوں کے لئے ہیں جو ایمان لائیں ہیں اور قیامت میں تو خالصتا ان کے لئے ہیں ۔ ہم آیات کو مفصل ان لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں جو ایمان لائیں ۔ “ تفصیل آیات میں یقینی علم کی طرف اشارہ ہے اور ان کی پیروی ضروری ہے۔ لوگ عبادات و شریعت کے بارے میں جس ظن وتخمین کی پیروی کرتے ہیں ۔ وہ درست نہیں ہے اور اس سلسلے میں ان کے تمام دعوے غلط ہیں ۔ اس کے بعد آخر میں بتایا جاتا ہے کہ آؤ تمہیں بتائیں اللہ نے کن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ۔ آیت ” قل انما حرم ربی الفواحش “۔ ” کہہ دیجئے میرے رب نے تو صرف ظاہری اور باطنی فواحش کو حرام قرار دیا ہے ‘ مطلق گناہ ‘ بغیر حق کے دست درازی ‘ اور یہ کہ تم بےدلیل شرک کرو اور اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جن کے بارے میں تمہارے پاس علم نہیں ہے ۔ “ ۔ اور جس طرح اللہ نے لباس وطعام کے بارے میں احکام دیئے اسی طرح اس نے عبادت اور اکل وشرب کے بارے میں بھی دیئے ہیں ۔ آیت ” قل امر ربی بالقسط “۔ (7 : 29) ” کہہ دیجئے میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے اور عبادت کے وقت اپنے چہروں کو درست رکھو ‘ کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو ‘ اللہ اسراف کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا۔ “۔ ان دونوں مباحث میں مسائل حلال و حرام کا تعلق ایمان اور شرک کے ساتھ جوڑا گیا ہے کیونکہ تحلیل وتحریم کا تعلق مسئلہ اقتدار اعلی سے ہے اور انسانوں میں سے کوئی مقتدر اعلی نہیں ہو سکتا ۔ نیز ان مسائل کا تعلق اس معاملے سے ہے کہ یہاں لوگ کس کی بندگی کریں گے ؟ غرض دونوں مقامات پر مسئلہ بھی ایک ہے اور منہاج بحث بھی ایک ہے اور اس بحث کے لئے جو درجے (Steps) رکھے گئے ہیں وہ بھی وہی ہیں ۔ (صدق اللہ العظیم) اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ یہ قرآن کریم اگر اللہ کی جانب سے نہ ہوتا تو دیکھنے والا دیکھتا کہ اس میں اختلافات ہیں ۔ وحدت منہاج کی اہمیت اس وقت دوچند ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ سورة انعام اور سورة اعراف کے موضوعات بحث مختلف ہیں ۔ لیکن جاہلیت کے ساتھ جب اسلامی نظام کا مقابلہ ہوتا ہے تو منہاج بحث ایک جیسا ہوجاتا ہے ۔ ‘ خصوصا جبکہ بات اساسی موضوعات و تصورات پر ہو۔
Top