Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
اور ہر ایک فرقے کیلئے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرتا ہے اور نہ ایک گھڑی جلدی کرتا ہے۔
اس میں ایک مسئلہ ہے : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولکل امۃ اجل یعنی ہر امت کے لیے ایک وقت ہے جو مقرر کردیا گیا ہے۔ آیت : فاذا جآء اجلھم یعنی جب ان کا وقت آجائے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں معلوم اور معین ہے۔ ابن سیرین نے صیغہ جمع کے ساتھ جآء اجالھم پڑھا ہے۔ آیت : لا یستاخرون تو نہ وہ اس سے ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ایک لمحہ سے کم، مگر یہ خاص طور پر ساعت کا ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ اوقات کے اسماء میں سے اقل اور کم یہی ہے اور یہ ظرف زمان ہے۔ آیت : ولال یستقدمون ( اور نہ ہو آگے بڑھ سکتے ہیں) تو یہ اس پر دلیل ہے کہ مقتول اپنا مقرر وقت آنے پر ہی قتل کیا جاتا ہے۔ اور اجل الموت سے مراد موت کا مقررہ وقت ہے، جیسے اجل الدین قرض کی ادائیگی کا مقررہ وقت ہے۔ اور ہر وہ شی جس کے ساتھ کسی شی کو موقت کردیا جائے تو وہی اس کے لیے اجل ہوتی ہے۔ اور انسان کی اجل سے مراد وہ خاص وقت ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ لا محالہ اس وقت خاص میں زندہ آدمی مر جائے گا۔ اور یہ وقت ہے جس سے اس کی موت کا موخر ہونا جائز نہیں ہوتا، اس حیثیت سے نہیں کہ اس کی تاخیر مقدر نہیں۔ اور بہت سے معتزلہ نے کہا ہے سوائے اس کے جس نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی ہے : بیشک مقتول اپنے اس مقرر وقت سے پہلے مر جاتا ہے جو اس کے لیے مقرر کیا گیا ہے اور یہ کہ اگر وہ قتل نہ کیا جاتا تو وہ ابھی زندہ رہتا۔ یہ غلط ہے، کیونکہ مقتول اس وجہ سے نہیں مرا کہ دوسرے نے اسے قتل کیا ہے بلکہ اس وجہ سے موت آئی ہے) جو فعل اللہ تعالیٰ نے اس کی جان ختم کرنے کے بارے اس وقت کیا جب اسے ضرب لگی۔ پھر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر وہ اپنے مقررہ وقت پر مرا ہے تو پھر اس کے قاتل کو قتل کیوں کیا جاتا ہے اور اس سے قصاص کیوں لیا جاتا ہے ؟ تو جواب یہ دیا جائے گا : ہم اسے اس لیے قتل کرتے ہیں کہ اس نے حد سے تجاوز کیا ہے اور اس نے ایسا تصرف کیا ہے جس میں اسے تصرف کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا، اس کا سبب مقتول کی موت اور اس کے جسم سے روح کا نکلنا نہیں، کیونکہ یہ اس ( قاتل) کا فعل نہیں۔ اگر وہ لوگوں کو اور اس کی اس تعدی اور زیادتی کو بغیر قصاص کے چھوڑ دے تو بالیقین یہ فساد اور لوگوں کو ہلاکتوں تک پہنچا دے۔ یہ بالکل واضح اور بین ہے۔
Top