Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
اور ہر امت کے لیے ایک مقررہ مدت ہے تو جب ان کی مدت پوری ہوجائے گی تو نہ ایک گھڑی پیشھے ہٹ سکیں گے، نہ آگے بڑھ سکیں گے
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ الایہ، ہم سورة کے تمہیدی مباحث میں عرض کرچکے ہیں کہ اصلاً یہ سورة انذار کی سورة ہے۔ یہ باتیں جو اوپر بیان ہوئیں محض فرد جرم یا اتمامِ حجت کی نوعیت کی ہیں۔ اس وجہ سے کلام بار بار اپنے اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہے۔ اوپر آیت 29 میں کما بداکم تعودون میں جس طرح آخت کی یاد دہانی کی اسی طرح یہ آیت قریش کو اللہ تعالیٰ کی اس سنت کو یاد دلا رہی ہے کہ تمہاری ان تمام شرارتوں کے باوجود اگر تمہاری پکڑ نہیں ہو رہی تو یہ نہ سمجھو کہ پکڑ ہوگی ہی نہیں۔ یہ سنت اللہ جس طرح تمام سرکش و باغی قوموں کے باب میں، جیسا کہ آیت 4-9 میں بیان ہوئی، پوری ہوئی تم پر بھی لازما پوری ہوگی۔ یہ مہلت جو تمہیں ملی ہے اس وجہ سے ملی ہے کہ اللہ نے ہر امت کی تباہی کے لیے ایک مدت مقرر کر رکھی ہے۔ جب وہ پوری ہوجائے گی تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہوگی نہ آگے بڑھے گی۔ افراد اور اقوام کے لیے اجل کے الگ الگ پیمانے : یہاں اس مقررہ مدت کے لیے ‘ اجل ’ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ افراد اور اقوام کے معاملے میں خدا نے ‘ اجل ’ کے پیمانے الگ الگ رکھے ہیں۔ افراد کے پیمانے تو سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں منٹوں کے حساب سے پورے ہوتے ہیں، جب وہ پورے ہوجاتے ہیں، فرد ختم ہوجاتا ہے، قوموں اور امتوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان کا حساب ان کے ایمانی و اخلاقی زوال سے ہوتا ہے۔ اخلاقی زوال و فساد کی ایک خاص حد ہے جو کسی قوم کے پیمانہ کے بھر جانے کی نشانی ہے۔ جب قوم گرتے گرتے اس حد کو پہنچ جاتی ہے، اس کا سفینہ غرق ہوجاتا ہے۔ جس طرح افراد کی موت کا وقت اللہ کے سوا کسی کو جانتا ہے کہ کب کوئی قوم اپنے زوال اخلاقی کے اعتبار سے اس آخری حد پر پہنچ گئی کہ اب اس کا صفحہ ارض پر باقی رہنا حکمت الٰہی کے خلاف ہے۔ یہاں وہ سنت الٰہی یاد رکھنی چاہیے جس کی وضاحت ہم متعدد مقامات میں کرچکے ہیں کہ کسی قوم میں رسول کی بعثت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام حجت کی آخری شکل ہوتی ہے اس وجہ سے قوم جب اپنے رسول کی تکذیب کردیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو لازماً فنا کردیتا ہے۔ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث انشاء اللہ سورة یونس کی تفسیر میں آئے گی۔
Top