Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
اور ہر فرقے کے واسطے ایک وعدہ ہے پھر جب آپہنچے گا ان کا وعدہ نہ پیچھے سرک سکیں گے ایک گھڑی اور نہ آگے سرک سکیں گے4
4 بظاہر شبہ ہوتا ہے کہ جب وعدہ کا وقت آپہنچا اور بعض کے نزدیک تو تاخیر کا امکان عقلی تھا اس لئے اس کی نفی ضروری ہوئی مگر تقدیم تو عقلاً ممکن ہی نہیں۔ اس کی نفی سے کیا فائدہ ہے ؟ اسی شبہ کی وجہ سے بعض مفسرین نے لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ کا عطف شرطیہ اِذَا جَاءَ اَجَلُھُمْ الخ پر مانا ہے اور بعض نے جاءَ اَجَلُھُمْ سے قرب و دُنوُّ مراد لیا ہے۔ میرے نزدیک ان تکلفات کی حاجت نہیں۔ محاورات میں کسی ایسی چیز کو جس کے مقابل دو طرفیں ہوں زور اور تاکید سے ثابت کرنے کے لئے بسا اوقات ایک طرف کی جو محتمل الثبوت ہو نفی مقصوداً کی جاتی ہے اور دوسری طرف کی جو پہلے سے غیر محتمل ہے نفی کو محض مبالغہ تاکید اور تحسین کلام کے طور پر استطراداً ذکر کردیتے ہیں۔ ایک خریدار دکاندار سے کسی چیز کی قیمت معلوم کر کے کہتا ہے کہ کچھ " کم و بیش " دکاندار بھی کہہ دیتا ہے کہ " کم و بیش نہیں ہوسکتا۔ " دونوں جگہ " کم " کا ذکر مقصود ہے۔ اور " بیش " کا لفظ محض تعیین قیمت کی تاکید و مبالغہ کے لئے استطراداً ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں بھی غرض اصلی کلام سے یہ ہے کہ خدا کا وعدہ جب آپہنچے تو پھر اٹل ہے ایک منٹ کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ مقصود تاخیر کی نفی کرنا ہے۔ تقدیم جو پہلے سے ظاہر الانتفاء تھی اس کی نفی کرنا محض وعدہ کے اصل ہونے پر زور ڈالنے کا ایک پیرا یہ ہے یعنی خدا پر افترا کرنے والے اور اس کی طرف نسبت کر کے حرام کو حلال بنانے والے خدا کی ڈھیل پر مغرورو بےفکر نہ ہوں۔ ہر امت اور ہر فرد کی خدا کے یہاں ایک معین مدت ہے، جب سزا کی گھڑی آجائے گی پھر ٹل نہ سکے گی۔
Top