Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
اور ہر امت کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب ان کی اجل آگئی تو اس سے ذرا دیر بھی پیچھے نہ ہٹیں گے اور مقدم بھی نہ ہوں گے۔
(1) امام ابن ابی حاتم، طرابی، ابو الشیخ، ابن مردویہ، خطیب نے تالی التلخیص میں اور ابن النجار نے تاریخ میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے آپس میں ذکر کیا عمر کے زیادہ ہونے کا رسول اللہ ﷺ کے پاس ہم نے کہا جس نے صلہ رحمی کی تو اس کی عمر میں زیادتی کردی جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا اس کی عمر میں زیادتی نہیں ہوتی (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون “ لیکن کوئی آدمی جس کی نیک اولاد ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بعد دعا کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس تک پہنچا دیتے ہیں یہ وہ چیز ہے جو اس کی مدت میں تاخیر کردیتی ہے۔ اور دوسرے لفظ میں یوں ہے تو ان کی دعا اس کی قبر میں ملتی ہے۔ اور یہ ہوتا ہے عمر کا زیادہ ہونا۔ (2) امام ابن حاتم نے سعید بن ابی عروبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ حسن ؓ فرمایا کرتے تھے وہ قوم کتنی احمق ہے جو کہتی ہے اے اللہ اس کی عمر کو لمبا کر دے اور اللہ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون “ (3) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذر نے زہر کے طریق سے ابن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ کو نیزہ مارا گیا تو کعب (رح) نے فرمایا اگر عمر ؓ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تو ان کی موت موخر ہوجاتی۔ ان سے کہا گیا کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ؟ لفظ آیت ” فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون “ کعب نے فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے (یہ بھی) فرمایا لفظ آیت ” وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرۃ الا فی کتب “ زہری نے فرمایا کوئی ایسا نہیں ہے کہ اس کی عمر لکھی گئی ہے۔ اور یہ دیکھا گیا جب اس کی مدت حاضر نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ موخر کردیتے ہیں جو چاہتے ہیں اور کم کردیتے ہیں (جو چاہتے ہیں) اور فرمایا لفظ آیت ” فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون “ (4) امام ابن سعد نے طبقات میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا۔ جب ہم نے اس کا ذکر کیا تو ہم نے عمر کا بھی ذکر کیا۔ اور جب ہم نے عمر کا ذکر کیا تو ہم نے اس کا بھی ذکر کیا۔ اور اور اس کے پہلو میں ایک نبی (رہتے) تھے کہ ان کی طرف وحی کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے نبی کو وحی فرمائی کہ اس سے کہو کہ اپنا معاہدہ لکھ لے وصیت بھی لکھ دے کیونکہ وہ تین دن تک مرنے والا ہے نبی نے اس کو اس بات کی خبر دیدی۔ جب تیسرا دن تھا تو وہ دیوار اور تخت کے درمیان گرپڑا پھر اپنے رب سے درخواست کی اور کہا اے اللہ اگر تو چاہتا ہے کہ میں حکم میں انصاف کرنے والا تھا۔ اور جب معاملات بکھر جاتے ہیں تو میں آپ سے ہدایت اور رہنمائی طلب کرتا ہوں آپ میری عمر میں زیادتی کر دیجئے یہاں تک کہ میرے بچے بڑے ہوجائیں اور اپنی امت کی تربیت کروں تو اللہ تعالیٰ نے نبی کی طرف وحی بھیجی کہ اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ اور اس نے سچ کہا ہے۔ میں نے اس کی عمر میں پندرہ سال زیادہ کر دئیے اور اس (مدت) میں اس کے بچے بڑے ہوجائیں گے اور اس کی امت بھی پرورش پالے گی جب عمر ؓ کو نیزہ مارا گیا تو کعب نے فرمایا اگر عمر (اللہ تعالیٰ سے) سوال کریں تو وہ ضرور ان کو باقی رکھیں گے۔ عمر ؓ کو اس بات کی خبر دی گئی تو فرمایا اے اللہ مجھے قبض کرلے (یعنی موت دیدے) اس حال میں کہ نہ تو میں عاجز ہوں اور نہ مجھ پر ملامت کی جائے۔ (5) امام ابن سعد نے ابن ابی ملیکہ ؓ سے روایت کیا کہ جب عمر کو نیزہ مارا گیا تو کعب تشریف لائے اور دروازے کے پاس رونا شروع کردیا اور کہہ رہے تھے اللہ کی قسم اگر امیر المومنین اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں ان کی موت میں تاخیر دے دی جائے تو ضرور ان کی تاخیر کردی جائے گی۔ ابن عباس ان کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا اے امیر المومنین یہ کعب اس طرح اور اس طرح کہتا ہے فرمایا تب تو میں اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کروں گا۔ (6) امام بیہقی نے دلائل میں اور ابن عساکر نے یحییٰ بن عبد الرحمن بن لبسہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص ؓ تشریف لائے اور فرمایا اے میرے رب میرے بیٹے چھوٹے ہیں مجھ سے موت کو مؤخر فرما دیں یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں تو ان سے موت بیس سال کے لئے مؤخر کردی گئی۔ (7) احمد نے ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ خوش لگے کہ اس کی موت موخر کردی جائے اور رزق میں اضافہ کردیا جائے تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ (8) امام حکیم ترمذی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی میری امت کے معاملات میں کسی چیز کا نگران بنایا گیا اور اس کی نیت اچھی رہی تو رعب ڈال دیا جائے گا لوگوں کے دلوں میں اور جب اس نے لوگوں کی طرف خیر اور بھلائی کا ہاتھ بڑھایا تو محبت ڈال دی جائے گی اس کی ان کے دلوں میں اور جب اس نے زیادہ کردیا ان کے مالوں کو تو اللہ تعالیٰ بھی زیادہ کریں گے اس پر اس کے مال کو اور جب ضعیف کو انصاف دلائے گا قوی سے۔ تو اللہ تعالیٰ قوت دیں گے اس کی بادشاہی کو اور جب انصاف کرے گا تو اس کی عمر میں زیادتی فرما دیں گے۔ (9) امام ابن ابی شیبہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص اپنے رب سے ڈر گیا اور صلی رحمی کی تو اس کی عمر میں زیادتی کردی جائے گی اور اس کا مال بڑھ جائے گا اور اس سے اس کے اہل و عیال محبت کریں گے۔
Top