Maarif-ul-Quran - At-Taghaabun : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
نہیں پہنچتی کوئی تکلیف بدون حکم اللہ کے اور جو کوئی یقین لائے اللہ پر وہ راہ بتلائے اس کے دل کو اور اللہ کو ہر چیز معلوم ہے
خلاصہ تفسیر
(جس طرح کفر آخرت کی فلاح سے کلیتہً مانع ہے، اسی طرح اموال و اولاد اور بیوی وغیرہ میں مشغول ہو کر خدائے تعالیٰ کے احکام میں کوتاہی کرنا بھی ایک درجہ میں فلاح آخرت سے مانع ہے اس لئے مصیبت میں تو یہ سمجھنا چاہئے کہ) کوئی مصیبت بدون خدا کے حکم کے نہیں آتی (اور یہ سمجھ کر صبر و رضا اختیار کرنا چاہئے) اور جو شخص اللہ پر (پورا) ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو (صبر و رضا کی) راہ دکھا دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے (کہ کس نے صبر و رضا اختیار کیا اور کس نے نہیں کیا اور ہر ایک کو حسب حکمت جزاء و سزا دیتا ہے) اور (خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر امر میں جس میں مصائب بھی داخل ہیں) اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور اگر تم (اطاعت سے) اعراض کرو گے تو (یاد رکھو کہ) ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے (جس کو وہ با حسن وجوہ کرچکے ہیں، اس لئے ان کا تو کوئی ضرر نہیں تمہارا ہی ضرر ہوگا اور چونکہ اللہ کو ضرر ہونے کا احتمال ہی نہیں، اس لئے اس کو یہاں بیان نہیں کیا اور تم لوگوں کو اور خصوص اہل مصیبت کو یوں سمجھنا چاہئے کہ) اللہ کے سوا کوئی معبود (بننے کے قابل) نہیں اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر (مصائب وغیرہ میں) تو کل رکھنا چاہئے، اے ایمان والو ! (جیسا مصیبت میں تم کو صبر و رضا کا حکم کیا گیا ہے اسی طرح نعمت کے بارے میں تم کو منہمک نہ ہونے کا حکم کیا جاتا ہے پس نعمت کے بارے میں یوں سمجھنا چاہئے کہ) تمہاری بعض بیبیاں اور اولاد تمہارے (دین کے) دشمن ہیں (جبکہ وہ اپنے نفع دنیوی کے واسطے تم کو ایسی بات کا حکم کریں جو تمہارے لئے مضر آخرت ہو) سو تم ان سے (یعنی ایسوں سے) ہوشیار رہو (اور ان کے ایسے امر پر عمل مت کرو) اور اگر (تم کو ایسی فرمائشوں پر غصہ آوے اور تم ان پر تشدد کرنے لگو اور وہ اس وقت معذرت اور توبہ کریں اور) تم (اس وقت ان کی وہ خطا) معاف کردو (یعنی سزا نہ دو) اور درگزر کر جاؤ (یعنی زیادہ ملامت نہ کرو) اور بخش دو (یعنی اس کو دل سے اور زبان سے بھلا دو) تو اللہ تعالیٰ (تمہارے گناہوں کا) بخشنے والا (اور تمہارے حال پر) رحم کرنے والا ہے (اس میں ترغیب ہے عفو کی اور یہ بعض اوقات واجب ہے جبکہ عقوبت سے احتمال غالب بےباکی کا ہو اور بعض اوقات مستحب ہے، آگے اولاد کے ساتھ اموال کے متعلق بھیاسی قسم کا مضمون ہے کہ) تمہارے اموال اور اولاد بس تمہارے لئے ایک آزمائش کی چیز ہے (کہ دیکھیں کون ان پر پڑھ کر خدا کے احکام کو بھول جاتا ہے اور کون یاد رکھتا ہے) اور (جو شخص ان میں پڑھ کر اللہ کو یاد رکھے گا تو) اللہ کے پاس (اس کے لئے) بڑا اجر ہے تو (ان سب باتوں کو سن کر) جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور (اس کے احکام) سنو اور مانو اور (بالخصوص مواقع حکم میں) خرچ (بھی) کیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا (غالباً اس کی تخصیص اس لئے ہے کہ یہ نفس پر زیادہ شاق ہے) اور جو شخص نفسانی حرص سے محفوظ رہا ایسے ہی لوگ (آخرت میں) فلاح پانے والے ہیں (آگے اس کے بہتر اور اور موجب فلاح ہونے کا بیان ہے کہ) اگر تم اللہ کو اچھی طرح (خلوص کے ساتھ) قرض دو گے تو وہ اس کو تمہارے لئے بڑھا تا چلا جائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بڑا قدر دان ہے (کہ عمل صالح کو قبول فرماتا ہے اور) بڑا برد بار ہے (کہ عمل معصیت پر فی الفور مواخذہ نہیں فرماتا اور) پوشیدہ اور ظاہر (اعمال) کا جاننے والا ہے (اور) زبردست ہے (اور) حکمت والا ہے (شکور سے حکیم تک تمام مضامین سورت کے لئے بمنزلہ علت کے ہیں کہ سب مضامین ان پر مرتب و متفرع ہو سکتے ہیں)
معارف و مسائل
(آیت) مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ ”یعنی کسی کو کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں پہنچتی اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو ہدایت فرما دیتا ہے“ مطلب یہ ہے کہ یہ امر تو اپنی جگہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کے بغیر کہیں کوئی ذرہ بھی نہیں ہل سکتا، اللہ کے اذن کے بغیر نہ کوئی کسی کو نقصان و تکلیف پہنچا سکتا ہے نہ نفع اور راحت مگر جس شخص کا اللہ پر اور اس کی تقدیر پر ایمان نہیں ہوتا مصیبت کے وقت اس کے لئے قرار و سکون کا کوئی سامان نہیں ہوتا، وہ ازالہ مصیبت کے لئے ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے، بخلاف مومن کے جس کا تقدیر الٰہی پر ایمان ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو اس پر مطمئن کردیتا ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت سے ہوا، جو کچھ مصیبت مجھے پہنچی وہ پہنچنی ہی تھی اس کو کوئی ٹلا نہیں سکتا اور جس مصیبت سے نجات ہوئی وہ نجات ہونا ہی تھی، کسی کی مجال نہیں جو اس مصیبت کو مجھ پر ڈال دے، اس ایمان و اعتقاد کے نتیجہ میں اس کو آخرت کے ثواب کا وعدہ بھی سامنے ہوتا ہے جس سے دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔
Top