بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 1
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اَتٰٓى : آپہنچا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ : سو اس کی جلدی نہ کرو سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک بناتے ہیں
خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس کے لیے جلدی مت کرو۔ یہ لوگ جو (خدا کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے
اتی امر اللہ اللہ کا حکم آپہنچا ‘ یعنی قریب آگیا۔ ابن عرفہ نے کہا : جس چیز کی (یقینی) توقع ہو ‘ عرب اس کیلئے کہتے ہیں : وہ چیزہو گئی۔ آیت میں امر الٰہی کے قریب الوقوع یا یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے مجازاً ماضی کا صیغہ استعمال کیا۔ جو بات آئندہ یقینی طور پر ہونے والی ہو اور اس کا ہونا لازم ہو ‘ اس کو بصیغۂ ماضی بیان کردیتے ہیں (صیغۂ ماضی سے اشارہ اس امر کی طرف ہوتا ہے کہ یہ کام ضرور ہوگا اور عنقریب ہوگا۔ مترجم) اَمْرُ اللّٰہِ سے مراد ہے : قیامت کا آنا (کلبی وغیرہ) مراد یہ ہے کہ قیامت کا آنا ضروری ہے۔ تم اس کا یقین رکھو اور یہ سمجھو کہ گویا آگئی ‘ اسلئے تیاری کرو۔ فلا تستعجلوہ اس کے جلد آجانے کی مانگ نہ کرو (وہ تو بہرحال آئے گی اور تمہارے لئے اس کے آنے میں کوئی فائدہ نہ ہوگا ‘ اس لئے جلد آنے کی خواہش تمہارے لئے ضرر رساں ہے) ۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ جب آیت اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ نازل ہوئی تو بعض کافروں نے کہا : یہ شخص کہتا ہے کہ پچھلی گھڑی قریب آگئی۔ اچھا ‘ تم (کچھ دنوں کیلئے) اپنے موجودہ مشاغل و اعمال کو ترک کر دو ‘ ہم بھی تو دیکھیں کہ آخر کیا ہونے والا ہے۔ لیکن جب کچھ مدت تک انتظار کرنے کے بعد بھی کچھ نہ ہوا (اور قیامت نہ آئی) تو کہنے لگے : تم جس چیز سے ہم کو ڈرا رہے ہو ‘ اس کا تو نام و نشان بھی نہیں پیدا ہوا۔ اس پر آیت اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُھُمْ نازل ہوئی۔ یہ آیت سن کر کافر خوف زدہ ہوگئے اور کچھ مدت تک مزید انتظار کیا ‘ لیکن طویل انتظار کے بعد بھی جب کچھ نہ ہوا تو کہنے لگے : محمد ﷺ تم ہم کو ڈراتے ہو اور ہوا کچھ بھی نہیں۔ اس وقت اتآی اَمْرُ اللّٰہِ نازل ہوا۔ اس جملہ کے نزول پر رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے اچھل پڑے اور لوگوں نے اپنے سر اوپر اٹھا کر دیکھا اور خیال کیا کہ قیامت حقیقت میں آ ہی گئی۔ اس پر (آخری فقرہ) فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ نازل ہوا ‘ اس وقت لوگوں کو اطمینان ہوا (اور گھبراہٹ دفع ہوئی) ۔ ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب اتآی اَمْرُ اللّٰہِ نازل ہوا تو صحابہ خوف زدہ ہوگئے ‘ اس پر فلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ نازل ہوا۔ استعجال کا معنی ہے : وقت سے پہلے کسی چیز کی طلب۔ بغوی نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں (سبابہ اور وسطیٰ ) سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : میں اور قیامت ان دونوں کی طرح (متصل) بھیجے گئے ہیں (شاید حضور ﷺ کی یہ مراد ہو کہ میرے بعد قیامت تک اور کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اور میری نبوت کا دور قیامت تک باقی رہے گا۔ مترجم) ترمذی نے حضرت مستورد بن شداد کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے عین قیامت (کے وقت) میں ہی بھیجا گیا مگر میں قیامت سے آگے آگیا ‘ جیسے یہ (انگلی) اس (انگلی) سے پہلے ہے (اگرچہ دونوں ساتھ ہی ساتھ ہیں) حضور ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں سبابہ اور وسطیٰ سے اشارہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت قیامت کی علامات میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب (پیام بعثت دے کر) حضرت جبرئیل کو بھیجا گیا اور اثناء راہ میں آپ آسمان والوں کی طرف سے گذرے تو اہل سماوات نے کہا : اللہ اکبر ! قیامت بپا ہوگئی۔ بعض اہل تفسیر کا خیال ہے کہ اَمْرُ اللّٰہِ سے مراد ہے : سزا اور عذاب قتل۔ واقعہ یہ ہوا کہ نضر بن حارث نے کہا تھا : اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دے۔ پس کافروں نے وقت سے پہلے عذاب کی مانگ کی ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ نضر کو بدر کے دن قتل کیا گیا۔ سبحٰنہ میں اللہ کی پاکی کا اظہار کرتا ہوں (جیسی پاکی اس کے لائق ہے۔ مترجم) وتعٰلے عما یشرکون اور وہ اپنی (صفات قدسیہ میں) ان کے شرک سے بزرگ وبالا ہے۔ یعنی یہ جو خیال کرتے ہیں کہ اللہ کا کوئی شریک ہے اور وہ ان کو اللہ کے عذاب سے بچا لے گا ‘ اللہ اس سے اعلیٰ اور بالا ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ اللہ ان کے شرکیہ بیان سے بالا ہے۔
Top