بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Aasan Quran - An-Nahl : 1
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اَتٰٓى : آپہنچا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ : سو اس کی جلدی نہ کرو سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک بناتے ہیں
اللہ کا حکم آن پہنچا ہے، لہذا اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ (1)۔ جو شرک یہ لوگ کر رہے ہیں، وہ اس سے پاک اور بہت بالا و برتر ہے۔
1: عربی زبان کے اعتبار سے یہ انتہائی زور دار فقرہ ہے جس میں آئندہ ہونے والے کسی یقینی واقعے کو ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے زور دار اور تاثیر کو کسی اور زبان میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کفار سے یہ فرماتے تھے کہ کفر کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ظاہر ہوگا اور مسلمان غالب آئیں گے تو وہ مذاق اڑانے کے انداز میں کہا کرتے تھے کہ اگر عذاب آنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے کہئے کہ اسے ابھی بھیج دے اس کا مقصد در حقیقت یہ تھا کہ عذاب کی یہ دھمکی اور مسلمانوں کی فتح کا وعدہ (معاذ اللہ) محض بناوٹی بات ہے، اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ اس سورت کا آغاز ان کے اس طرز عمل کے مقابلے میں یہ فرما کر کیا گیا ہے کہ کافروں پر آنے والے جس عذاب اور مسلمانوں کے غلبے کی جس خبر کو تم ناممکن سمجھ رہے ہو وہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے۔ اور اتنا یقینی ہے کہ گویا آن ہی پہنچا ہے، لہذا اس کے آنے کی جلدی مچا کر اس کا مذاق نہ اڑاؤ، کیونکہ وہ تہارے سر پر کھڑا ہے۔ پھر اگلے فقرے میں اس عذاب کے یقینی ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس سے پاک بلکہ اس سے بہت بالا و برتر ہے لہذا اس کے ساتھ شرک کرنا اس کی توہین ہے، اور خالق کائنات کی توہین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ توہین کرنے والے پر عذاب نازل ہو (تفسیر المہائمی 402:1)
Top