Mufradat-ul-Quran - Az-Zukhruf : 79
اَمْ اَبْرَمُوْۤا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَۚ
اَمْ اَبْرَمُوْٓا : بلکہ انہوں نے مقرر کیا اَمْرًا : ایک کام فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ : تو بیشک ہم مقرر کرنے والے ہیں
کیا انہوں نے کوئی بات ٹھہرا رکھی ہے تو ہم بھی کچھ ٹھہرانے والے ہیں
اَمْ اَبْرَمُوْٓا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ۝ 79 ۚ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ برم الإِبْرَام : إحكام الأمر، قال تعالی: أَمْ أَبْرَمُوا أَمْراً فَإِنَّا مُبْرِمُونَ [ الزخرف/ 79] ، وأصله من إبرام الحبل، وهو تردید فتله، قال الشاعر : علی كلّ حال من سحیل ومبرم والبرِيمُ : المُبْرَم، أي : المفتول فتلا محکما، يقال : أَبْرَمْتُهُ فبَرِمَ ، ولهذا قيل للبخیل الذي لا يدخل في المیسر : بَرَم كما يقال للبخیل : مغلول الید . والمُبْرِم : الذي يلحّ ويشدّد في الأمر تشبيها بمبرم الحبل، والبرم کذلک، ويقال لمن يأكل تمرتین تمرتین : بَرَمٌ ، لشدة ما يتناوله بعضه علی بعض، ولما کان البریم من الحبل قد يكون ذا لونین سمّي كلّ ذي لونین به من جيش مختلط أسود وأبيض، ولغنم مختلط، وغیر ذلك . والبُرْمَةُ في الأصل هي القدر المبرمة، وجمعها بِرَامٌ ، نحو حفرة وحفار، وجعل علی بناء المفعول، نحو : ضحكة وهزأة . ( ب ر م ) الابرام کے معنی کسی معاملہ کو محکم اور مضبوط کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَمْ أَبْرَمُوا أَمْراً فَإِنَّا مُبْرِمُونَ [ الزخرف/ 79] کیا انہوں نے کوئی بات ٹھہرا رکھی ہے تو ہم بھی کچھ ٹھہرانے والے ہیں ۔ یہ اصل میں ابرام الحبل سے ماخوذ ہے جس کے معنی رسی کو مضبوط بنئے کے ہیں شاعر نے کہا ی ( طویل ) یعنی ہر حالت میں ( تم قابل ستائش ہو ) البریم بمعنی مبرم یعنی مضبوط بٹی ہوئی رسی محاورہ ہے ۔ اسی بنا پر کنجوس آدمی کو جو جو انہ کھیلتا ہو برم کہا جاتا ہے جیسا کہ بخیل کو مغلول الید کہتے ہیں ۔ اور مبرم الحبل کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر اس آدمی کو جو کسی معاملہ میں مصر اور بضدر ہو اسے المبرم کہا جاتا ہے یہی معنی البرم کے ہیں اور جو آدمی دو دو کھجوریں ملا کر کھاتا ہو اسے بھی برم کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں سختی کے ساتھ کھانا کے معنی پائے جاتے ہیں اور رسی کبھی دو رنگ پر ہوتی ہے اس لئے ہر سیاہ سفید پر مشرمل لشکر ادر بکریوں کے ملے جلے ریوڑ کو بریم کہا جاتا ہے البرمۃ اصل میں پتھری کی ہنڈیا کو کہتے ہیں ج برام جیسے حضرۃ کی جمع حضار اور یہ اور یہ کی طرح مفعول کے اذران سے ہے ۔
Top