Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 79
اَمْ اَبْرَمُوْۤا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَۚ
اَمْ اَبْرَمُوْٓا : بلکہ انہوں نے مقرر کیا اَمْرًا : ایک کام فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ : تو بیشک ہم مقرر کرنے والے ہیں
کیا انھوں نے کوئی قطعی فیصلہ کرلیا ہے، تو ہم بھی ایک قطعی فیصلہ کرلیں گے
اَمْ اَبْرَمُوْٓا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ ۔ (الزخرف : 79) (کیا انھوں نے کوئی قطعی فیصلہ کرلیا ہے، تو ہم بھی ایک قطعی فیصلہ کرلیں گے۔ ) قریش کو فیصلہ کن عذاب کی دھمکی گزشتہ آیت میں اسلوب خطاب کا تھا۔ اس آیت میں غائب کا اسلوب اختیار کرلیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قریش اور دیگر مشرکین پر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ تم اپنے مسلسل کرتوتوں کی وجہ سے اس قابل نہیں رہے کہ تم سے براہ راست خطاب کیا جائے، بلکہ تم سے منہ پھیر کر یہ بات کہی جارہی ہے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی اندازہ ہورہا ہے کہ اب معاملہ افہام و تفہیم سے آگے نکل چکا ہے۔ تم نے پیغمبر کے ساتھ چونکہ اپنے رویئے میں انتہا کردی ہے اور کوئی سا دکھ اور کوئی سی تکلیف ایسی نہیں جس کا نشانہ تم نے مسلمانوں کو نہ بنایا ہو۔ تمہارے اس رویئے نے ہمارے غضب کو بھڑکنے کی دعوت دی ہے۔ تم نے اگر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ تم نبی کریم ﷺ کی دعوت کے سننے کے بھی روادار نہیں ہو تو ہم بھی پھر تمہاری ہدایت سے محرومی کا فیصلہ کیے دیتے ہیں، کیونکہ ہمارا تو قانون ہی یہ ہے کہ ہم اس وقت تک مہلت پہ مہلت دیئے جاتے ہیں جب تک مخالفین کا رویہ مایوسی پیدا نہیں کردیتا۔ لیکن جب وہ حق قبول نہ کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیتے ہیں تو پھر ہم بھی ان کی محرومی کا فیصلہ کردیتے ہیں۔ دوسرا اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کو قتل کردینے کا منصوبہ بنالیا ہے تو پھر ہم بھی اپنی سنت کے مطابق یہ فیصلہ کریں گے کہ اپنے پیغمبر کو ہجرت کا حکم دیں گے اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں گے۔ اور پھر مخالفین پر یا تو ایسا عذاب آئے گا جو ان کی کمر توڑ کے رکھ دے گا اور یا ہم ان پر جزوی عذاب نازل کریں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ ہجرت فرما گئے اور ایک ہی سال بعد جنگ بدر کا معرکہ برپا ہوا جس میں قریش کی پہلی صف تہ تیغ کردی گئی اور دوسری صف کو گرفتاری اور قید کی ذلتوں کا شکار ہونا پڑا۔ آگے آنے والی آیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آیت کریمہ کے مفہوم میں دوسری بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔
Top