Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ
آیت نمبر 42 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تلبسوا الحق بالباطل، اللبس کا معنی خلط ملط ہونا ہے۔ لبست علیہ الامر والبسہ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب تو اس کی دلیل کو اس کی مشکل کے ساتھ ملا دے اور اس کے حق کو اس کے باطل کے ساتھ ملا دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وللبسنا علیھم ما یلبسون۔ (الانعام) وفی الامر لبسۃٌ، یعنی امر واضح نہیں ہے۔ اسی مفہوم میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے جو آپ نے حارث بن حوط کو کہا تھا : یا حارث انہ ملبوس علیک ان الحق لا یعرف بالرجال اعرف الحق تعرف اھلہ۔ اے حارث ! معاملہ تجھ پر خلط ملط ہوگیا ہے حق مردوں کے ساتھ نہیں پہچانا جاتا میں حق کو پہچانتا ہوں تو حق والوں کو پہچانتا ہے۔ خنساء نے کہا تھا : تری الجلیس یقول الحق تحسبہ رشداً وھیھات فانظر ما بہ التبسا صدق مقالتہ واحذر عداوتہ والبس علیہ اموراً مثل ما لبسا تو دوست کو دیکھتا ہے کہ وہ حق کہہ رہا ہے تو اسے ہدایت گمان کرتا ہے دیکھ اس کے ساتھ جو کچھ اس نے ملا دیا۔ اس کی بات کی تصدیق کر اور اس کی عداوت سے محتاط ہوجا اور تو بھی اس پر امور کو ملتبس کر دے جس طرح اس نے التباس کیا۔ عجاج نے کہا : لما لبسن الحق بالتجنی غنین واستبدلن زیداً منی سعید نے قتادہ سے روایت کیا ہے : ولا تلبسوا الحق بالباطل۔ یعنی یہودیت اور نصرانیت کو اسلام کے ساتھ ملتبس نہ کرو تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا دین وہ ہے جس کے علاوہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا اور اس کے بغیر جزا نہیں دیتا وہ دین اسلام ہے، یہودیت ونصرانیت بدعت ہے وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ عشرہ کے قول سے یہ معنی ظاہر ہے : وکتیبۃ لبس تھا بکتیبۃ کتنے لشکر ہیں جن کو میں نے دوسرے لشکروں کے ساتھ ملا دیا۔ یہ اسی مفہوم میں ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ لباس سے ہو۔ آیت کے معنی میں یہ کہا گیا ہے کہ تم نہ ڈھانپو۔ اسی سے لبس الثوب ہے، کپڑے کا پہننا۔ کہا جاتا ہے : لبست الثوب البسہ۔ لباس الرجل زوجتہ، مرد کا لباس اس کی بیوی ہے اور زوجھا لباسھا۔ اور مرد اپنی بیوی کا لباس ہے۔ جعدی نے کہا : اذا ما الضجیع ثنی جیدھا تثنت علیہ فکانت لباسا جب سونے والے نے اپنے بیوی کی گردن کو دوہرا کیا تو وہ اس پر لپٹی اور وہ اس کا لباس تھی۔ اخطل نے کہا : وقد لسبت لھذا الامر اعصرہ حتی تجلل راسی الشیب فاشتعلا اس امر کی وجہ سے میں نے اس کا زمانہ ڈھانپ لیا حتیٰ کہ میرے سر میں بڑھاپا ظاہر ہوگیا۔ اللبوس، کپڑے اور زرہ میں سے جو پہنا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم (الانبیاء :80) ولا لبست فلاناً حتی عرف باطنہ۔ میں فلاں سے چمٹا رہا حتیٰ کہ میں نے اس کا باطن پہچان لیا۔ وفی فلان ملبسٌ۔ فلاں لطف اندوز ہونے کی جگہ ہے۔ شاعر نے کہا : الا ان بعد العدم للمرء قنوۃ وبعد المشیب طول عمرو ملبسا خبردار ! آدمی کے لئے فقدان کے بعد لباس ہوتا ہے اور بڑھاپے کے بعد لمبی عمر اور لباس ہوتا ہے۔ لبس العکبۃ والھودج۔ کعبہ اور ہودج کا کپڑا۔ لباس۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بالباطل باطل کلام عرب میں حق کے خلاف کو کہتے ہیں اس کا معنی زائل کرنا ہے۔ لبید نے کہا : الاکل شیءٍ ما خلا اللہ باطل، خبردار ! ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سوا زوال پذیر ہے۔ بطل الشیء یبطل بطلاً وبطولاً وبطلاناً ۔ چیز ضائع ہوگئی، خسارے میں چلی گئی۔ ابطلہ غیرہ، دوسری چیز نے اسے زائل کردیا۔ کہا جاتا ہے : ذھب دمہ بطلاً یعنی اس کا خون رائیگاں گیا۔۔۔۔ الباطل شیطان کو کہتے ہیں۔ البطل بہادر آدمی۔ اس کو البطل اس لئے کہتے ہیں کہ وہ دوسرے کی شجاعت کو زائل کردیتا ہے۔ نابغہ نے کہا : لھم لواء بایدی ماجد بطل لا یقطع الخرق الا طرفہ سامی ان کا جھنڈا بہادر آدمی کے ہاتھوں میں ہے، وہ پھٹا نہیں ہے مگر اس کی بلند طرف۔ المرأۃ بطلۃ۔ عورت بہادر ہے۔ قد بطل الرجل (طا کے ضمہ کے ساتھ) یبطل بطولۃ وبطالۃً ۔ یعنی وہ شخص بہادر ہوگیا۔ بطل (بفتحہ طاء) بطالۃ یعنی معطل ہوگیا فھو بطال۔ اہل تایل کا الحق بالباطل کے مراد میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے جو تمہارے پاس کتاب میں حق ہے اسے باطل کے ساتھ نہ ملاؤ۔ یعنی اس سے مراد تغیر وتبدل کرنا ہے۔ ابو العالیہ نے کہا : یہود نے کہا : محمد ﷺ کو مبعوث کیا گیا ہے لیکن ہماری طرف نہیں ان کا نبی کریم ﷺ کی بعثت کا اقرار کرنا اور ان کی طرف بعثت کا انکار کرنا باطل ہے۔ ابن زید نے فرمایا : الحق سے مراد تورات ہے اور باطل سے مراد وہ ہے جو انہوں نے حضرت محمد ﷺ کے ذکر کو بدلا۔ مجاہد نے کہا : یہودیت اور نصرانیت کو اسلام کے ساتھ نہ ملاؤ (1) ۔ یہ قتادہ نے کہا ہے۔ یہ قول پہلے گزر چکا ہے۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابن عباس کا قول زیاد درست ہے، کیونکہ وہ عام ہے اس میں تمام اقوال جمع ہیں۔ واللہ المستعان۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وتکتموا الحق یہ جائز ہے کہ یہ تلبسوا پر معطوف ہو اور یہ مجزوم ہو، اور اس کا ان کے اضمار کے ساتھ منصوب ہونا بھی جائز ہے۔ تقدیر یوں ہوگی : لا یکن منکم لبس الحق وکتمانہ یعنی اگر تم حق کو چھپاتے ہو تو تمہاری طرف سے حق کا التباس اور چھپانا نہیں ہونا چاہئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس سے مراد نبی کریم ﷺ کے امر کو چھپانا ہے حالانکہ وہ آپ ﷺ کو جانتے تھے۔ محمد بن سیرین نے کہا حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد سے ایک جماعت یثرب میں آکر اتری جب نبی اسرائیل کو دشمن کے غلبہ اور ذلت کا سامنا ہوا تھا۔ یہی گروہ اس وقت تورات کا حامل تھا وہ یثرب میں ٹھہر گئے اور وہ امید رکھتے تھے کہ ان کے درمیان حضرت محمد ﷺ ظاہر ہوں گے وہ آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق کرنے والے تھے، جب وہ بزرگ چلے گئے جو مومنین میں سے تھے پھر ان کی نسل سے لوگ آئے انہوں نے حضرت محمد ﷺ کا زمانہ پایا اور انہوں نے آپ کا انکار کیا حالانکہ وہ آپ ﷺ کو پہچانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فلما جاء ھم ما عرفوا کفروا بہ (البقرہ :89) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانتم تعلمون یہ جملہ حال ہے یعنی تم جانتے ہو کہ حضرت محمد ﷺ حق ہیں اور ان کا کفر عناد کی وجہ سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے علم کی گواہی نہیں دی بلکہ انہیں اس سے منع فرمایا کہ جو وہ جانتے ہیں اسے نہ چھپائیں۔ یہ دلیل ہے کہ اسے سخت گناہ ہوتا ہے جو جانتے ہوئے گناہ کرتا ہے وہ جاہل سے زیادہ نافرمان ہوتا ہے۔ مزید بیان اتامرون الناس بالبر (البقرہ :44) کے تحت آئے گا۔
Top