Al-Qurtubi - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں ہمارے دل پردے میں ہیں (نہیں) بلکہ خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں
آیت نمبر 88 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقالوا یعنی یہود قلوبنا غلف، غلفٌ لام کے سکون کے ساتھ ہے اس کی جمع اغلف ہے یعنی ہمارے دلوں پر پردے ہیں۔ یہ اس قول کی مثل ہے : قلوبنا فی اکنۃٍ مما تدعونا الیہ۔ (ہمارے دل غلافوں میں (لپٹے ہوئے) ہیں اس بات سے جس کی طرف آپ ہمیں بلاتے ہیں) ۔ مجاہد نے کہا غلفٌ یعنی ان پر پردہ ہے (2) ۔ عکرمہ نے کہا : یعنی ان پر مہر لگی ہوئی ہے۔ اہل لغت نے حکایت کیا ہے : غلفت السیف، میں نے تلوار کے لئے غلاف بنایا۔ فقلبٌ اغلف یعنی ایسا دل جو فہم وتمیز سے پوشیدہ ہے۔ حضرت ابن عباس، اعرج اور ابن محیصن نے غلف لام کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : اس کا معنی ہے ہمارے دل علم سے بھرے ہوئے ہیں انہیں حضرت محمد ﷺ اور کسی دوسرے کے علم کی ضرورت نہیں (3) ۔ بعض نے فرمایا : یہ غلاف کی جمع ہے جیسے خمار، خمر۔ یعنی ہمارے دل علم کے برتن ہیں کیا وجہ ہے کہ تمہاری بات نہیں سمجھتے حالانکہ ہم نے بہت سا علم محفوظ کر رکھا ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے : حضرت محمد ﷺ کا علم ان سے کیسے پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا : بل لعنھم اللہ بکفرھم فقلیلاً ما یؤمنون۔ (لیکن (اپنی رحمت سے) دور کردیا انہیں اللہ نے بوجہ ان کے کفر کے پس نہیں ایمان لائیں گے مگر تھوڑے سے) پھر اس کا سبب بیان فرمایا کہ وہ ایمان سے کیوں بھاگتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے جو انہوں نے کفر کیا اور جرأت کی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے یہ گناہ پر بڑی سزا ہے۔ اللعن کی اصل دھتکارنا اور دور کرنا ہے بھیڑئیے کو لعین کہا جاتا ہے دھتکارے ہوئے شخص کو لعین کہا جاتا ہے۔ الشماخ نے کہا : ذعرت بہ القطا ونفیت عنہ مقام الذئب کالرجل اللعین اس شعر میں اصل کلام اس طرح تھی : مقام الذئب اللعین کالرجل۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا۔ بعض علماء نے فرمایا : اپنی توفیق اور اپنی ہدایت سے دور کردیا۔ بعض نے فرمایا : ہر خیر سے دور کردیا یہ عام ہے۔ فقیلاً مصدر محذوف کی صفت ہے۔ تقدیر اس طرح ہے :ایماناً قیلاً یومنون (1) ۔ معمر نے کہا : اس کا معنی ہے وہ اس میں سے تھوڑے پر ایمان لاتے ہیں جو ان کے ہاتھوں میں ہے اور اس میں سے اکثر کا انکار کرتے ہیں (2) ۔ قلیلاً حرف الصفہ کے نزع کے ساتھ منصوب ہے، اور ما صلۃ ہے یعنی فقلیلاً یومنون۔ واقدی نے کہا : اس کا معنی ہے نہ وہ تھوڑے پر ایمان لاتے ہیں نہ زیادہ پر جیسے تو کہتا ہے : ما اقل ما یفعل کذا یعنی اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ کسائی نے کہا : عرب کہتے ہیں : مررنا بارض قل ما تنبت الکرات والبصل یعنی ہم ایسی زمین سے گزرے جو کچھ نہیں اگاتی تھی۔
Top