Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
اور جب اس نے مدین کا رخ کیا تو اس نے دعا کی، امید ہے کہ میرا رب میری رہنمائی سیدھی راہ کی طرف فرمائے گا
حضرت موسیٰ ؑ کا قصد مدین اور اللہ کی راہ میں کام کرنے والوں کے لئے ایک سبق اسلوب کلام سے یہ بات نکلتی ہے کہ حضرت موسیٰ جس وقت مصر سے نکلے ہیں اس وقت انہوں نے اپنے سفر کی منزل متعین نہیں کی تھی۔ یہ فیصلہ انہوں نے بعد میں کیا کہ انہیں مدین کی طرف جانا چاہئے اور مدین کے معاملے میں بھی یہ بات ان کے ذہن میں واضح نہیں تھی کہ انہیں کس کے پاس اور کس مقام پر جانا چاہئے بلکہ بغیر کسی تعین کے مدین کی سمت کو اس امید کے ساتھ چل کھڑے ہوئے کہ رب کریم و کار ساز سیدھی راہ کی طرف رہنمائی فرمائے گا اور کسی مستقر پر پہنچائے گا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ نکلنا اس نوعیت کی ہجرت نہیں تھا جس کا مرحلہ ان کی بعثت کے بعد پیش آیا۔ ہجرت کے معاملے میں تو سنت الٰہی یہ رہی ہے کہ اس کا وقت بھی اللہ تعالیٰ نے خود مقررفما ای ہے اور اس کے تمام مراحل و منازل بھی اپنے رسول پر خود واضح فرمائی ہیں لیکن اس سفر میں حضرت موسیٰ ؑ کے سامنے اس طرح کی کوئی واضح غیبی رہنمائی نہیں تھی۔ بس متوکلا علی اللہ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے اسبی توکل نے ان کی دست گیری و رہنمائی کی۔ اس پہلو سے یہ واقعہ اللہ کے ان تمام بندوں اور بندیوں کے لئے نہایت سبق آموز ہے جن کو حق کی راہ میں کوئی ابتلاء پیش آئے۔ اگر وہ اللہ کے اعتماد پر کوئی قدم اٹھائیں گے تو ان کو خدا کی رہنمائی حاصل ہوگی اگرچہ اس کے لئے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح بشارت نہ ملی ہو۔
Top