Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
پھر ہم نے اپنی کتاب 5میں بنی اسرائیل کو اِس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاوٴ گے۔6
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 5 کتاب سے مراد یہاں تورات نہیں ہے بلکہ صُحُفِ آسمانی کا مجموعہ ہے جس کے لیے قرآن میں اصطلاح کے طور پر لفظ " الکتاب " کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 6 بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے برے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور، یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح ؑ نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہوجائے۔ پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد ؑ نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں ”انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمراں بن گئے“ (زبور، باب 106۔ آیات 34۔ 41) اس عبارت میں ان واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے، گویا کہ وہ ہوچکے۔ یہ کتب آسمانی کا خاص انداز بیان ہے۔ پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں ”آہ، خطاکار گروہ، بد کرداری سے لدی ہوئی قوم، بدکرداروں کی نسل، مکار اولاد، جنہوں نے خدا وند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہوگئے، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے“ ؟ (باب 1۔ آیت 4۔ 5) ”وفادار بستی کیسی بدکار ہوگئی ! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی، لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔ تیرے سردار گردن گش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے۔ وہ یتیموں کا انصان نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خداوند رب الافواج اسرائیل کا قادر یوں فرماتا ہے کہ آہ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا“۔ (باب 1۔ آیت 21۔ 24) ”وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلستیوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔ اور ان کی سرزمین بتوں سے بھی پر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں“۔ (باب 2۔ آیت 6۔ 7) ”اور خداوند فرماتا ہے، چونکہ صہیون کی بیٹیاں (یعنی یروشلم کی رہنے والیاں) متکبر ہیں اور گردن گشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بےپردہ کر دے گا۔۔ تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے۔ اس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی“۔ (باب 3۔ آیت 16۔ 26) ”اب دیکھ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب، یعنی شاہ اسور (اسیریا) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا“۔ (باب 8۔ آیت 7) ”یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو۔۔۔۔۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بد کرداری تمہارے لیے ایسی ہوگی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔۔ وہ اسے کہا رکے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا، اسے بےدریغ چکنا چور کرے گا، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے“۔ (باب 30۔ آیت 9۔ 14) پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا ”خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بےانصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سے دور ہوگئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے ؟۔۔ میں تم کو باغوں والی زمین میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کردیا، اور میری میراث کو مکروہ بنایا۔۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی۔ ہاں، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی (یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہر بت کو سجدہ کیا)۔۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء اور کاہن اور (جھوٹے) نبی، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پھتر سے کہ تو نے مجھے جنم دیا، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اٹھ کر ہم کو بچا۔ لیکن تیرے وہ بت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا ؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اٹھیں، کیونکہ اے یہوداہ ! جتنے تیرے شہر میں اتنے ہی تیرے معبود ہیں“۔ (باب 2۔ آیت 5۔ 28) ”خدا وند نے مجھ سے فرمایا، کیا تو نے دیکھا کہ بر گشتہ اسرائیل (یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست) نے کیا کیا ؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری (یعنی بت پرستی) کی۔۔ اور اس کی بےوفا بہن یہودا۔ (یعنی یروشلم کی یہودی ریاست) نے یہ حال دیکھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب بر گشتہ اسرائیل کی زنا کاری (یعنی شرک) کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا (یعنی اپنی رحمت سے محروم کردیا) تو بھی اس کی بےوفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی برائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری (یعنی بت پرستی) کی“۔ (باب 3۔ آیت 6۔ 9) ”یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا۔۔ میں تجھے کیسے معاف کروں، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں۔ جب میں نے ان کو سیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے۔ وہ پیٹ بھرے گھوڑوں کے مانند ہوئے، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر بن بنانے لگا۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی“ ؟ (باب 5۔ آیت 1۔ 9) ”اے اسرائیل کے گھرانے ! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑ ھا لاؤں گا۔ خدا وند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے۔ وہ قدیم قوم ہے۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر مرد ہیں۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسہ ہے تلوار سے ویران کردیں گے“۔ (باب 5۔ آیت 15۔ ا 7) ”اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کی کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یرشلم کے بازاروں میں خوشی اور شاد مانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہوجائے گا“۔ (باب 7۔ آیت 33۔ 34) ”ان کو میرے سامنے سے نکال دے کہ چلے جائیں۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف، اور جو کال کے لیے ہیں وہ کال کو، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں“۔ (باب 15۔ آیت 2۔ 3) پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا ”اے شہر، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں۔۔ دیکھ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انہوں نے ماں پاک کا حقیر جانا۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا، تو نے میری پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سبتوں کو ناپاک کیا، تیرے اندر وہ ہیں جو چغلخوری کرکے خون کرواتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو بتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں، تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی، تجھ میں انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خورای کی، تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا، کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا ؟ میں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ سے نابود کردوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھہرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں "۔ (باب 22۔ آیت 3۔ 16) یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح ؑ نے ان کو خبردار کیا۔ متی باب 23 میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں " اے یروشلم ! اے یرو شلم ! تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں، مگر تو نے نہ چاہا، دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے "۔ (آیت 27۔ 38) " میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے " (باب 24۔ آیت 2) پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جارہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جس میں عورتیں بھی تھیں، روتی پیٹتی ان کے پیچھے جارہی تھیں، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا " اے یروشلم کی بیٹیو ! میرے لیے نہ روؤ بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روؤ، کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا، اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو "۔
Top