بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰسین
1 تا 4۔ حروف مقطعات کا ذکر سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکا ہے ‘ یہ سورة مکی ہے مکہ کے مشرک آنحضرت ﷺ کی نبوت کو نہیں مانتے تھے کبھی تو جادو گر بتلاتے تھے اور کبھی شاعر اور کاہن کہتے تھے اور کبھی فقط اتنا ہی کہہ دیتے کہ لست مرسلا جس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کے رسول نہیں ہو اس لیے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ ان مشرکوں کو یقین دلانے کے لیے آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ذکر کیا ہے ان آیتوں میں قریش کی بات کا جواب تھا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے خاندان قریش کا ذکر لتنذ رقوما ما آنذر آباء ھم سے فرمایا ورنہ آنحضرت ﷺ کی نبوت تمام مخلوقات کے لیے عام ہے چناچہ اور آیتوں میں ہے وقل للذین اوتوا الکتاب والا میبن اور لا نذرکم بد ومن بلغ اور صحیح حدیثوں میں آپ نے فرمایا ہے کہ میری نبوت عام ہے چناچہ صحیح مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی روایت 2 ؎ میں آپ ﷺ نے فرمایا (2 ؎ مشکوۃ ص 12 کتاب الایمان) کہ جو یہودی یا نصرانی میری نبوت پر ایمان نہ لائے گا وہ دوزخی ٹھہرے گا اور علاوہ تمام مخلوقات انسانی کے آپ کا جنات کی ہدایت کے لیے جنگل میں جانا اور جنات کا آپ کے پاس احکام شریعت سیکھنے کے لیے آنا یہ بھی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے ‘ چناچہ صحیح مسلم کی عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت 1 ؎ میں آنحضرت ﷺ کا جنات کی ہدایت کے لیے جانے اور ان کو قرآن شریف سنانے کا تفصیل سے ذکر ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 164 ج 4) جس چیز کی قسم کھائی جاتی ہے اس کو مقسم بہ کہتے ہیں اور جس بات کی صداقت کے لیے قسم کھائی جاتی ہے اس کو مقسم علیہ کہتے ہیں ‘ یہاں مقسم بہ قرآن ہے اور مقسم علیہ آنحضرت ﷺ کی نبوت ہے قرآن شریف میں مقسم بہ اکثر ظاہر چیزیں ہیں جیسے آسمان چاند سورج وغیرہ اگرچہ مشرکین مکہ کے نزدیک قرآن شریف کا کلام الٰہی ہونا ایسا ظاہر نہ تھا جس طرح چاند سورج کو ظاہر میں وہ آنکھوں سے دیکھتے تھے لیکن اللہ کے رسول کا ان پڑھ ہونا اور قرآن شریف میں ایسی باتوں کا پایا جانا ان پڑھ شخص تو درکنار کوئی پڑھا لکھا شخص بھی ایسی باتیں بغیر غیبی مدد کے نہیں کہہ سکتا اس لیے قرآن کی قسم کھا کر مشرکین مکہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ بات جتلائی کہ جس طرح چاند سورج ظاہر چیزیں ہیں اسی طرح یہ بھی ایک ظاہر بات ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور جن پر یہ اللہ کا کلام اترا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں اور جس راہ پر وہ لوگوں کو لگاتے ہیں وہ سید ہا راستہ نجات کا ہے۔ صراط مستقیم اور بدعتی فرقے معتبر سند سے مسند امام احمد نسائی دارمی اور مستدرک حاکم میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت 2 ؎ ہے (2 ؎ مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فضل دوسری مع تنقیح الرواۃ ص 40 ج 1) جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے ایک خط کھینچ کر فرمایا کہ یہ راستہ اللہ کا ہے اور پھر اس خط کے دائیں بائیں اور خط کھینچ کر فرمایا ان سب راستوں میں شیطان کا دخل ہے ترمذی ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہ ؓ اور فقط ترمذی میں عبداللہ بن عمروبن العاص سے 3 ؎ جو روایتیں ہیں (3 ؎ ایضا مع تنقیح الرواۃ ص 41 جلد اول) ان میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اختلاف کے سے سبب بنی اسرائیل میں بہتر فرقے ہوگئے ہیں اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجائیں گے جن میں ایک فرقہ جنتی اور سیدھی راہ پر ہوگا اور یہ وہی فرقہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ ؓ کے طریقہ پر ہوگا ‘ یہ حدیثیں صراط مستقیم کی گویا تفسیر ہیں “ ابوہریرہ ؓ کی حدیث کو ترمذی نے صحیح اور عبداللہ بن عمر وبن العاص کی حدیث کو حسن کہا ہے عبداللہ بن عمر وبن العاص کی سند کے ایک راوی عبدالرحمن بن زیاد افریقی کو اگرچہ دار قطنی نے ضعیف کہا ہے لیکن یحییٰ بن سعید القطان نے عبدالرحمن بن زیاد کو ثقہ قرار دیا ہے 4 ؎ یحییٰ بن سعید رادیوں کی جانچ کے باب میں امام مشہور ہیں (4 ؎ ایضا تنقیح الرواۃ) اور راویوں کی جانچ میں ان کے قول کا بڑا اعتبار ہے یہ یحییٰ امام احمد (رح) کے استادوں میں شمار کئے جاتے ہیں فلسفہ یونانی اسلام میں آن کر اہل قبلہ میں طرح طرح کے فرقے جو پیدا ہوگئے ان حدیثوں میں اس کی پیشین گوئی کے موافق آنحضرت ﷺ کی حدیثوں اوراقوال صحابہ ؓ کو اصول فلسفہ کی طرف کھینچنا اور سلف کے طریقہ کو چھوڑنا شروع ہوا۔ اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کی عظمت جتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ہر ایک چیز کی قسم کھائی ہے لیکن مسلمان آدمی کو سوا اللہ تعالیٰ کے نام کے اور چیزوں کی قسم کھانے کی مناہی ہے چناچہ صححو بخاری وغیرہ کی عبداللہ بن عمر ؓ کی روایتوں میں اس کا ذکر تفصیل سے آیا 5 ؎ ہے (5 ؎ مشکوۃ ص 296 باب الایمان والنذور)
Top