بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰسین،
لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 12 :۔ الحکیم (پختہ اور مستحکم) حق القول ( بات پکی ہوچکی ہے ( عذاب ثابت ہوچکا ہے) اغناق ( عنق) (گردنیں) اغلال (طوق) الاذقان (ذقن) (ٹھوڑیاں) مقمحون ( مقمح) ( سر اونچا کرنے والے ( جو آگے نہیں جھکا سکتے) سد (دیوار) اغشینا ( ہم نے ڈھانپ دیا) خشی ( ڈرا) نکتب ( ہم لکھتے ہیں) قدموا ( آگے بھیجا) اثار ( اثر) پیچھے چھوڑی ہوئی نشانیاں ( اعمال) احصینا (ہم نے گھیر لیا) امام مبین ( کھلی کتاب) تشریح : آیت نمبر 1 تا 12 :۔ اس سورت کا آغاز بھی ایسے حروف سے کیا گیا ہے جن کو حروف مقطعات کہا جاتا ہے یعنی وہ حروف جو معنی سے کٹے ہوئے ہیں اور ان کے معنی کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے لیکن اس جگہ بعض علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ ’ ’ یٰسین “ کے معنی اے انسان کے ہیں جس سے مراد انسان کامل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں ( ابن عباس ؓ ، عکرمہ ؓ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو ان کے نام سے پکارا ہے جیسے یا آدم ، یا موسیٰ ، یا عیسیٰ وغیرہ لیکن اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن کریم میں کسی جگہ ” یا محمد “ کہہ کر خطاب نہیں کیا بلکہ آپ کی مختلف صفات سے آپ کو پکارا گیا ہے جیسے ” یایھا المدثر، یا ایھا المزمل “ وغیرہ اسی طرح آپ کے صحابہ ؓ نے بھی کبھی آپ کو ” یا محمد ﷺ “ کہہ کر خطاب نہیں کیا بلکہ یا رسول اللہ ﷺ کہہ کر کوئی بات عرض کیا کرتے تھے۔ البتہ کفار اور گستاخ منافقین آپ کو ” یا محمد “ کہہ کر اپنے کلام کا آغاز کرتے تھے ۔ لہٰذا یا محمد کہنا یا لکھنا دونوں جائز نہیں ہیں۔ اس سورت کو ” یٰسین “ سے شروع کیا ہے جس میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے حکمت سے بھر پور قرآن کریم کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اللہ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نے آپ کو اپنے رسولوں میں سے ایک رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں ۔ یہ وہ صراط مستقیم ( قرآن حکیم) ہے جس کو ایسے زبردست اور رحم و کرم کرنے والے اللہ نے نازل کیا ہے جس میں کسی شک و شبہ اور وہم کی گنجائش نہیں ہے تا کہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے بد ترین نتائج سے آگاہ کردیں اور ان کو اصل کامیابی و کامرانی اور منزل مقصود کی طرف رہنمائی فرما دیں ۔ یہ اللہ کا وہ آسان اور سہل کلام ہے جسے ہر شخص سمجھ کر اس پر عمل کرسکتا ہے۔ فرمایا کہ آپ ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیجئے جن کے پاس سیکڑوں سال سے کوئی آگاہ اور خبردار کرنے والا نہیں آیا ہے۔ آپ ان کو وہ باتیں بتا دیجئے جن سے وہ خود اور ان کے باپ دادا ناواقف تھے۔ اب بھی اگر وہ خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو یہ ان کی بد نصیبی ہوگی ۔ آپ کا کام ہے پیغام حق سنا دینا جو سعادت مند ہے وہ اس کو یقینا مان لے گا لیکن جس کے مقدر میں بد نصیبی اس کے برے اعمال کے سبب لکھ دی گئی ہے وہ اس حقیقت کو کبھی تسلیم نہ کرے گا ، لہٰذا آپ ایسے لوگوں کی پرواہ نہ کیجئے ۔ ایسے لوگوں کو جنہیں ان کی دولت اور دنیا کے اسباب نے غرور وتکبر کا پیکر بنا دیا ہے وہ اپنی بڑائی اور ذات میں اس طرح گم ہیں کہ وہ اپنے سے باہر کی کسی حقیقت کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور گردنیں اکڑ کر چلتے ہیں ان کا انجام یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کی گردنوں میں ایسے طوق ڈال دیئے جائیں گے جو ان کی گردنوں کو ٹھوڑیوں تک جکڑدیں گے جن سے ان کا سر اور چہرہ اوپر کو اٹھا رہ جائے گا ۔ نہ وہ اپنی گردنوں کو ہلا سکیں گے اور نہ نیچے دیکھ سکیں گے یہ ان کی آخرت سے غفلتوں کا نتیجہ ہوگا ۔ فرمایا کہ ہم نے ان کے سامنے اور پیچھے دیوار کھڑی کردی ہے جس سے وہ باہر کی ہر حقیقت کو دیکھنے سے محروم ہیں ۔ حق و صداقت کو دیکھنے اور سننے کے قابل نہیں رہے۔ ان پر غفلتوں کے ایسے پردے پڑچکے ہیں کہ ان کو آخرت اور عذاب الٰہی سے ڈرانا یا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں ۔ کیونکہ جو آدمی کسی سچائی کو ماننے کے لئے تیار ہی نہ ہو اس سے ایمان لانے کی توقع کرنا فضو ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار مسلط ہوچکی ہے ۔ تا ہم اے نبی ﷺ ! آپ اپنا مشن جاری رکھئے جو لوگ اپنے دلوں میں خوف الٰہی کی شمعیں روشن کرچکے ہیں ان کا غیب پر کامل یقین ہے اور وہ اللہ و رسول کے ہر حکم کی تعمیل کرنے والے ہیں ایسے لوگوں کو معافی و مغفرت اور ایک بہت بڑے اجر وثواب کی خوش خبری دے دیجئے۔ فرمایا کہ ساری مخلوق کے مر جانے کے بعد نہ صرف ہم ان سب کو دوبارہ پیدا کریں گے بلکہ ان کے وہ تمام اعمال جو انہوں نے اپنے آگے بھیجے ہیں یا اپنے پیچھے چھوڑے ہیں وہ سب لکھ کر محفوظ کر لئے گئے ہیں جس کے جیسے اعمال ہوں گے اس کو ویسا ہی بدلے ملے گا ۔ ان آیات کی چند باتوں کی وضاحت یہ سورت جو عام طور پر ” سورة یٰسین “ کہی جاتی ہے اس کے احادیث میں بہت سے نام آئے ہیں جو اس سورت کی عظمت کی نمایاں دلیل ہے۔ عظیمہ ، معمہ ، مدافعہ ، قاصیہ۔ معمہ :۔ جو شخص اس سورت کو پڑھتا ہے وہ دنیا و آخرت کی تمام برکات اور رحمتوں کو حاصل کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ یہ سورت اپنے پڑھنے والے کی شفاعت کرے گی۔ مدافعہ : جو شخص اس سورت کی تلاوت کا عادی ہوگا وہ بہت سی بلاؤں اور مصیبتوں سے محفوظ رہے گا ۔ قاضیہ : اس سورت کو پڑھنے سے انسان کی ضروریات اور حاجات پوری کی جاتی ہیں ۔ اس لئے حضرت عبد اللہ ابن زبیر ؓ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی حاجت کے لئے سورة یٰسین کو پڑھے گا تو اس کی ہر حاجت پوری ہوجائے گی۔ ( المحاملی) نبی کریم ﷺ سے اور بہت سی احادیث میں اس سورت کے پڑھنے والوں کے لئے بعض سے ارشادات ہیں ۔ حضرت ابو دردائ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس مرنے والے کے پاس اس سورت کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کی موت کے قوت آسانی ہوجاتی ہے۔ ( ویلمی ۔ ابن حیان) حضرت معقل ابن یسار نے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” یٰسین “ قرآن حکیم کا قلب ( دل) ہے۔ فرمایا کہ جو شخص سورة یٰسین پڑھے گا اس کی مغفرت کردی جائے گی ۔ اس کو تم اپنے مرنے والوں پر پڑھا کرو۔ ( نسائی ، حاکم، روح) حضرت یحییٰ ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ جو شخص صبح کو سورة یٰسین پڑھے گا وہ شام تک خوشی اور آرام سے رہے گا ۔ اور اگر شام کو پڑھے گا تو صبح تک خوش و خرم رہے گا ۔ فرمایا کہ مجھے یہ بات اس نے بتائی ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ ( این الفریس) ٭یہ بھی نبی کریم ﷺ کی شان اور عظمت کا ایک پہلو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت و رسالت کی گواہی دی ہے اور قسم کھائی ہے۔ یہ مقام کسی اور نبی اور رسول کو حاصل نہیں ہے۔ اہل عرب کا دستور یہ تھا کہ جب وہ کوئی یقینی بات کہتے تھے تو قسم کھا کر کہتے تھے تا کہ دوسرے کو اس بات کی سچائی پر یقین آجائے۔ دوسرے یہ کہ کلام کی فصاحت وبلاغت کا یہ بھی اندازہ تھا کہ اس کلام میں مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی جاتی تھیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زمین و آسمان ، چاند، سورج ، ستاروں ، دن رات ، گھوڑوں اور نفس انسانی اور اپنی ذات اور قرآن کریم کی قسمیں کھا کر بہت سی ان حقیقتوں کی وضاحت فرمائی ہے جو انسان کو کھلی آنکھ سے نظر آتی ہیں ۔ قرآن کریم میں ایسے سات مقامات ہیں جہاں اللہ نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت پر قسم کھاتے ہوئے ان کفار کو جو قسمیں کھا کر آپ کی نبوت و رسالت کا انکار کیا کرتے تھے آگاہ اور خبردار کیا ہے کہ آپ کو اللہ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے جس میں کسی شک و شبہ اور وہم کی گنجائش نہیں ہے اور آپ کو جو کتاب الٰہی دی گئی ہے وہ علم و حکمت اور دانائی و بینائی کے اصولوں سے بھر پور ہے اور قیامت تک اسی کی روشنی میں زندگی کے اندھیرے دور کئے جاسکیں گے۔ ٭قرآن کریم میں جتنی باتیں اور احکامات نازل کئے گئے ہیں وہ نہایت متانت ، سنجیدگی اور وقار کا تقاضا کرتے ہیں ۔ لہٰذا وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی چمک دمک اور رونقوں میں مبتلا ہو کر آخرت کی زندگی کو بھلا دیا ہے اور اپنی زندگیوں کو کھیل کود بنا لیا ہے ان کے مزاج اس طرح الٹ دیئے گئے ہیں کہ انہوں نے ہر سچی بات کو جھٹلانا اپنا مزاج بنا لیا ہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگ جو اپنی بد عملی کی انتہاؤں تک پہنچ چکے ہیں آپ ان کی پروا نہ کیجئے کیونکہ ان پر حجت تمام ہوچکی ہے اور اب وہ ان لوگوں میں شامل ہو کر اپنے عقیدے میں پختہ ہوچکے ہیں جن پر اللہ کا عذاب طے ہوچکا ہے لہٰذا آپ ان کی پرواہ نہ کیجئے اور آپ پیغام رسالت کو ساری دنیا تک پہنچانے کی جس جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اس مشن کو جاری رکھئے اور ان بدکرداروں کو سچائی کا سعور ، صراط مستقیم کی تڑپ اور اللہ کے سامنے حاضری کا احساس دلاتے رہئے۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو حق و صداقت کی آواز سن کر اس کی طرف دوڑ کر آئیں گے اور دین اسلام کی سچائیوں کو ساری دنیا میں پھیلانے میں اپنا سب کچھ قربان کردیں گے۔ آپ ان کو پیغام حق پہنچایئے جو اللہ اور اس کے رسول کی محبت و اطاعت کی شمعیں روشن کرنا چاہتے ہیں یہی ایک انعام عظیم کے مستحق ہوں گے اور ان کو ان کی نیکی اور قربانیوں کا پورا پورا بدلہ اور صلہ دیا جائے گا ۔ ٭ اس کے بر خلاف وہ لوگ جو اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری سے منہ موڑ کر چلیں گے ان کی گردنوں میں طوق ڈالے جائیں گے اور ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا ۔ گردنوں میں طوق ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے کسی مجرم کی گردن اچھی طرح شکنجے میں اس طرح جکڑ دی جائے جس سے اس کا چہرہ اور سر اوپر کو اٹھا رہ جائے ۔ جس سے وہ اپنی گردن کو نہ تو ہلا سکتا ہو اور نہ اپنے سر کو نیچے کرسکتا ہو ۔ اگر وہ کسی راستے پر جا رہا ہو اور راستے میں کوئی کھڈیا گڑھا آجائے اور وہ اس میں گر کر ہلاک ہوجائے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے اسی طرح وہ لوگ جو زندگی کے اسباب کا طوق اپنے گلے میں ڈالے گھوم رہے ہیں وہ کبھی سچائی کو دیکھنے کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ان کی ضد اور ہٹ ڈدھرمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ حق و صداقت کو قبول کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ نہ وہ حق کو دیکھ سکتے ہیں اور وہ اللہ کے سامنے اپنی گردن جھکانے کو تیار ہوتے ہیں ۔ فرمایا کہ ان کی غفلت کا یہ حال ہے کہ وہ کائنات میں بکھری ہوئی ہزاروں نشانیوں کو یکھنے اور سمجھنے کے باوجود اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ اللہ کا پیغام دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچاتے رہیے جو سعادت مند اور خوش نصیب ہیں وہ اس کو مان لیں گے لیکن جنہوں نے بد نصیبی اور جہنم کا راستہ اختیار کرلیا ہے اور انہوں نے اپنے دل کو سخت بنا لیا ہے ان کے سامنے ساری حقیقتیں بھی کھول کر رکھی دی جائیں گی وہ ان کو کبھی تسلیم نہ کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دنیا کی رونقوں ، چمک دمک، مال و دولت کی کثرت ، باپ دادا کی اندھی تلقید ، غفلت ، جہالت ، بد عملی ، نادانی اور ان کے اعمال کی شامت نے چاروں طرف سے اس طرح گھیر لیا ہے جیسے ان کے آگے اور پیچھے ایک دیوار ہے اور اوپر سے اس کو ڈھانپ دیا گیا ہے۔ جس طرح ایسا شخص ارد گرد سے بیخبر اور غافل ہوتا ہے اسی طرح اپنی خواہشات کی دیواروں میں یہ اس طرح بند ہیں کہ وہ حق و صداقت کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اللہ نے ایسے لوگوں کے لئے بد ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” ونکتب ما قدموا و اثارھم ‘ ‘ اور ہم اس کو لکھ رہے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا یا اس کو پیچھے چھوڑا ۔ عمل کو آگے بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں جو بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے وہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ وہ آخرت میں لکھا لکھا یا اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا ۔ جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار ہوگا اور جس کے برے اور بد ترین اعمال ہوں گے اس کو ہمیشہ کے لئے جہنم کے انگاروں پر لوٹنا ہوگا ۔ یہ تو وہ اعمال ہیں جو اس نے آگے بھیجے ہیں لیکن وہ نیک اعمال جو اس نے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں وہ اس کے لئے ثواب جاریہ ہیں جن کا اجر قیامت تک ملتا رہے گا جیسے اس نے نیک اولادچھوڑی یا اس نے کوئی ایسا کام کیا ہو جس میں اللہ کے بندوں کا بھلا ہو وہ اس کے لئے صدقہ جاریہ ہے جیسے کسی نے مسجد بنوا دی یا اس کے بنوانے میں شرکت کی یا کسی کو حافظ قرآن یا عالم بنا دیا جب تک وہ مسجد رہے گی حافظ قرآن کو سناتا رہے گا عالم اپنے علم کو پھیلاتا رہے گا اس کا ثواب اس کے کرنے والے کو بھی ملے گا اور بغیر کسی کمی کے اس شخص کو بھی ملتا رہے گا جس نے اس کار خیر کا آغاز کیا تھا ۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی ایسا کام کیا جو اللہ و رسول کی نافرمانی کا کام ہے تو اس کا عذاب کرنے والے کو اور جس نے اس کو قائم کیا دونوں کو ملے گا ۔ حضرت جریر ابن عبد اللہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا ثواب ( قیامت تک) ملتا رہے گا اور اس کے طریقے پر جو عمل کریں گے ان کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کمی کی جائے اور جس نے برا طریقہ جاری کیا تو اس کو ( قیامت تک) گناہ ملتا رہے گا اور جتنے لوگ اس برے عمل کو اختیار کریں گے ان کا گناہ اس ( جاری کرنے والے) کو بھی ملتا رہے گا بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کمی آئے۔ ( ابن کثیر ، ابن ابی حاتم)
Top