بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰسین
آیت 1 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے قرآن حکیم کی قسم ہے، جس کا وصف حکمت ہے اور حکمت سے مراد ہے ہر چیز کو اس کے اپنے مقام پر رکھنا اور امرونہی کو اس مقام پر رکھنا جو ان کے لائق ہے اور خیر و شر کی جزا کو اس مقام پر رکھنا جو ان کے لائق ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے تمام احکام شرعی اور جزائی بےانتہا حکمت پر مبنی ہیں۔ اس قرآن کی حکمت یہ ہے کہ اس نے ” حکم “ اور ” حکمت “ کے تذکرے کو یکجا کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ عقول انسانی کو ان مناسبات اور اوصاف سے متنبہ کرتا ہے جو ترتیب حکم کا تقاضا کرتی ہیں۔ (انک لمن المرسلین) ” بیشک آپ رسولوں میں سے ہیں۔ “ یہ ہے وہ حقیقت جس پر اللہ تعالیٰ نیق سم کھائی اور وہ ہے محمد مصطفیٰ ﷺ کی رسالت اے محمد ! ﷺ آپ جملہ انبیاء ومرسلین میں شامل ہیں آپ کوئی انوکھے رسول تو نہیں ہیں، نیز آپ وہی دینی اصول لے کر مبعوث ہوئے ہیں جو دیگر انبیاء نے پیش کئے تھے۔ جو کوئی انبیاء ومرسلین کے احوال و اوصاف پر غور کرتا ہے تو اسے انبیاء ومرسلین اور عام لوگوں کے درمیان فرق معلوم ہوجاتا ہے اور اسے اس حقیقت کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی ہے کہ آپ تمام رسولوں میں اعلیٰ و افضل مقام رکھتے ہیں کیونکہ آپ صفات کا ملہ اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہیں۔ جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے، یعنی قرآن حکیم اور جس کے بارے میں قسم کھائی گئی ہے یعنی حضرت محمد ﷺ کی رسالت، ان کے مابین جو اتصال ہے وہ مخفی نہیں۔ اگر حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر اس قرآن حکیم کے سوا کوئی دوسری دلیل اور شہادت نہ بھی ہوتی تب بھی قرآن حکیم آپ کی رسالت پر دلیل اور شہادت کے لئے کافی ہے، بلکہ قرآن عظیم آپ کی رسالت پر ہمیشہ رہنے والی قوی ترین دلیل ہے۔ قرآن حکیم کی حقانیت کے تمام دلائل دراصل رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے دلائل ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول مصطفیٰ ﷺ کا سب سے بڑا وصف بیان فرمایا جو آپ کی رسالت پر دلالت کرتا ہے کہ آپ (علی صراط مستقیم) ” سیدھے راستے پر گامزن ہیں “ جو معتدل ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ یہ راہ راست ایسے اعمال صالحہ پر مشتمل ہے جو قلب و بدن اور دنیا و آخرت کی اصلاح کرتے ہیں، جو اخلاق فاضلہ، تزکیہ نفس، تطہیر قلب اور اجر میں اضافے کے حامل ہیں۔ یہی سیدھا راستہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین کا وصف ہے۔ قرآن حکیم کی جلالت شان پر غور کیجیے کہ اس نے افضل ترین قسم اور جلیل ترین مقسم علیہ کو کیسے یکجا کردیا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر ہی کافی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنے رسول ﷺ کی رسالت کی حقانیت پر واضح دلائل اور روشن براہین قائم کئے ہیں۔ اس راستے پر چلنے کے لئے ہم کچھ لطیف نکات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔ یہ صراط مستقیم (تنزیل العزیز الرحیم) وہ راستہ ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور اسے اپنے بندوں کے لئے لاحہ عمل کے طور پر نازل فرمایا جو انہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی قدرت کا ملہ سے تغیر و تبدل سے محفوظ فرمایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو اپنی بےپایاں رحمت کے سائے میں لے لیا جو انہیں اس کے داررحمت میں پہنچاتی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو اپنے دو کریم ناموں (العزیز) اور (الرحیم) پر ختم فرمایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی رسالت پر قرآن حکیم کی قسم کھانے کے بعد، اس پر دلائل قائم کئے اور ذکر فرمایا کہ ان کی طرف رسول مبعوث کئے جانے کی سخت ضرورت تھی، ارشاد فرمایا : (لتنذرقوماً مآ انذر ابآؤھم فھم غفلون) ” تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے، لہٰذا وہ غافل ہیں۔ “ اس سے مراد وہ ” امی “ عرب ہیں جن میں کتابیں نازل ہوئی تھیں نہ رسول مبعوث ہوئے تھے گمراہی ان پر چھا گئی تھی، جہالت نے ان کو اندھا کردیا تھا اور وہ اپنے اوپر اور اپنی بےوقوفی پر جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ان کی طرف ایک رسول مبعوث فرمایا، تاکہ ان کو پاک کرے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے جبکہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں مبتلا تھے اور تاکہ وہ ” امی “ عربوں اور ان کے بعد آنے والے ہر امی کو گمراہی کے انجام سے ڈرائے۔ نیز اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو ان کتابوں کی یاد دہانی کراتا ہے۔ جو ان کے پاس ہیں۔ یہ کتاب حکیم تمام لوگوں کے لئے عام طور پر اور عربوں کے لئے خاص طور پر نعمت ہے مگر یہ لوگ جن کو برے انجا سے انجام سے ڈرانے کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا ہے، آپ کی دعوت اور انداز کے بعد وہ دو گروہوں میں مقنسم ہوگئے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے آپ کی دعوت کو رد کردیا اور آپ کے انداز کو قبول نہ کیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لقد حق القول علی اکثرھم فھم لایومنون) یعنی ان میں اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر اور اس کی مشیت نافذ ہوگئی کہ وہ اپنے کفر و شرک پر جمے رہیں گے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان حق ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے حق پیش کیا، مگر انہوں نے حق کو ٹھکرا دیا تب اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان موانع کا ذکر فرمایا جن کی وجہ سے ایمان ان کے دلوں تک نہ پہنچ سکا، چناچہ فرمایا : (انا جعلنا فی اعناقھم اغلاً فھی الی الاذقان) ” بیشک ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں۔ “ (اغلال) (غل) کی جمع ہے یعنی وہ طوق جو گردن میں ڈالا جاتا ہے اور یہ گردن کے لئے ایسے ہی ہے جیسے پاؤں کے لئے بیڑی اور ان کی گردن میں پڑے ہوئے یہ طوق بہت بڑے ہوں گے۔ یہ طوق ان کی ٹھوڑیوں تک ہوں گے جس کی وجہ سے ان کے سر اوپر کو اٹھے ہوئے ہوں گے۔ (فھم مقمحون) پس وہ ان طوقوں کی سختی کی وجہ سیاپنے سر اوپر کو اٹھائے ہوئے ہیں اور ان کو جھکا نہیں سکتے۔ (وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا) ” اور ہم نے ان کے آگے اور پیچھے ایک رکاوٹ کھڑی کردی ہے “ جو ان کے ایمان لانے سے مانع ہے۔ (فھم لایبصرون) ” پس وہ نہ دیکھ سکتے۔ “ جہالت اور شقاوت نے انہیں ہر جانب سے گھیر رکھا ہے اس لئے انداز نہ کریں، ان کے لئے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “ وہ شخص کیسے ایمان لاسکتا ہے جس کے دل پر مہر لگا دی گئی ہو جو حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتا ہو۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اذار کو قبول کرلیا ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (انما تنذر) یعنی آپ کا انداز اور آپ کی نصیحت صرف اسی شخص کو فائدہ دے گی (من اتبع الذکر) ” جس نے نصیحت کی پیروی کی۔ “ جو اتباع حق کا قصد رکھتا ہے (وخشی الرحمٰن بالغیب) ” اور رحمٰن سے بن دیکھے ڈرے “ جو ان دو اوصاف سے متصف ہے یعنی طلب حق میں قصد حسن اور خشت الٰہی تو یہی وہ لوگ ہیں جو آپ کی رسالت سے فیض یاب اور آپ کی تعلیم سے تزکیہ نفس کرسکتے ہیں، جسے ان دوامور کی توفیق بخش دی گئی (فبشرہ بمغفرۃ) تو اسے اس کے گناہوں کی بخشش کی خوش خبری دے دیجیے (واجر کریم) اور اس کے نیک اعمال اور اچھی نیت کے باوقار اجر کی خوش خبری دے دیجیے۔ (انا نحن نحی الموتی) یعنی ہم انہیں، ان کے مرجانے کے بعد، دوبارہ زندہ کریں گے تاکہ ہم انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیں۔ (ونکتب ماقدموا) ” اور ہم لکھتے ہیں وہ اعمال جن کو وہ آگے بھیجتے ہیں “ اچھے اور برے اعمال میں سے۔ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو وہ اپنی زندگی کے دوران کرتے رہے ہیں۔ (واثارھم) اس سے مراد وہ آثار خیر اور آثار شر میں جنہیں وہ اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد وجود میں لانے کا سبب بنے۔ ان اعمال نے ان کے اقوال، افعال اور احوال سے جنم لیا۔ بھلائی کا ہر وہ کام آثار خیر میں شمار ہوتا ہے جو بندے کے علم، اس کی تعلیم، خیر خواہی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے سبب سے وجود میں آتا ہے یا وہ علم جسے وہ اپنے متعلمین میں ودیعت کرتا ہے یا اس کی تحریر کے سبب سے وجود میں آتا ہے جس سے اس کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا کوئی نیک عمل جسے بندہ سرانجام دیتا ہے مثلاً نماز، صدقہ، یا کوئی بھلی بات جس کی دوسرے لوگ پیروی کریں، یا کسی مسجد کی تعمیر، یا کسی ایسی جگہ کی تعمیر جس سے لوگ استفادہ کرتے ہوں یا اس قسم کے دیگر کام، یہ سب آثار خیر میں شمار ہوتے ہیں جن کو اس کے لئے لکھ لیا جاتا ہے اور اسی طرح آثار شر ہیں، جن کو لکھ لیا جاتا ہے۔ بنا بریں رسول الہ ﷺ نے فرمایا : (آیت) (1) ” جس نے دین اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کا اجرا سے عطا ہوگا اور اس کے بعد جو کوئی بھی اس پر عمل کرے گا اس کا اجر بھی ان کے اجروں میں کمی کرنے کے بغیر اسے ملے گا۔ جس کسی نے دین اسلام میں کسی برائی کو رواج دیا اس کا گناہ اس کو ملے گا اور ان لوگوں کا گناہ بھی اس کی گردن پر ہوگا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے جب کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ “ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ہر طریقے اور ذریعے سے اس کی طرف جانے والے راستے کی نشاندہی کرنے کی عظمت واضح ہوجاتی ہے۔ برائی کی طرف دعوت دینے اور اس کو رائج کرنے والا سب سے گھٹیا مخلوق، سب سے بڑا مجرم اور سب سے زیادہ گناہوں کا بوجھ اٹھانے والا ہے۔ (وکل شیء) ” اور ہر چیز کو “ یعنی اعمال اور نیتوں وغیرہ کو (احصینہ فی امام مبین) ” ہم نے ایک واضح کتاب میں درج کر رکھا ہے “ اس سے مراد (ام الکتب) ہے وہ تمام کاتبیں، جو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں، اسی کی طرف لوٹتی ہیں اور وہ لوح محفوظ ہے۔ (1) صحیح مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ۔۔۔ ، ح :1018
Top