بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰسٓ
ترکیب : یٰس کلام فی الاعراب و اُختلف فی معانہ فقال ابن عباس یا انسان بلغۃ طیّ اُقتصر علی شطرہ لکثرۃ النداء والمراد بہ محمد ﷺ وقال ابوبکر الوّراق معناہ یا سید البشر، وقیل ھو اسم من اسماء النبی ﷺ وقیل حروف اختصرت من الفاظ معدوۃ ابتدأت بھافی مفاتح السور لرموز یعلمھا اللہ تعالیٰ و قدمر الکلام فی سورة البقرۃ، قرء الجمور بسکون النون والقرآن الحکیم بالجبر علی انہ مقسم بہ ابتداء و قیل ھو معطوف علی یٰس علی تقدیر کو نہ مجرو رابا ضما رالقسم والاصح ان الواو للقسم، انک الخ جواب القسم علی صراط خبر آخرلان تنزیل قرء ابن عامر و حفص و الکسائی بالنصب باضما راعنی اوعلیٰ انہ مفعول مطلق ای نزل اللہ ذلک تنزیل العزیز وقریء بالرفع علی انہ خبر مبتداء محذوف بالجبر علی البدل من القرآن۔ تفسیر : اس سورة میں بیاسی یا تراسی آیتیں ہیں۔ قرطبی کہتے ہیں بالاتفاق یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی ہے، ابن عباس اور عائشہ ؓ سے بھی یہی منقول ہے۔ فضائل : دارمی و ترمذی و محمد بن نصرو بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ ہر شے کا دل ہوتا ہے۔ قرآن کا دل یٰس ہے، جو کوئی ایک بار اس کو پڑھے گا، دس بار قرآن مجید پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ ترمذی نے اس کے اسناد میں کلام کیا ہے، مگر اسی حدیث کو ابوبکر صدیق ؓ سے حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں اور ابوہریرہ ؓ سے ابوبکر بزار نے اور دوسری سند سے روایت کیا ہے اور حافظ ابویعلی نے ابوہریرہ ؓ کے واسطے سے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جندب بن عبداللہ ؓ کے ذریعہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی شب کے وقت اللہ کے لیے اس سورة کو پڑھے گا صبح کو گناہوں سے پاک ہو کر اٹھے گا، یعنی اس کے گناہ معاف ہوجاویں گے، اس کی برکت سے، امام احمد (رح) نے بھی اس بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ اس کے پڑھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اس کو اپنے مردوں پر پڑھاکرو اور اسی طرح نسائی نے فی الیوم واللیلہ میں نقل کیا ہے اور ابو دائود و ابن ماجہ نے بھی۔ اسی لیے بزرگان دین نے فرمایا ہے کہ ہر سختی کے وقت یٰس پڑھنا چاہیے، اس کی برکت سے وہ سختی دفع ہوتی ہے۔ حاجت پوری ہوتی ہے اور موت کے وقت پڑھنے سے میت کی روح آسانی سے نکلتی ہے اور ایمان نصیب ہوتا ہے اور بہت سے مہمات کے لیے اس سورة مبارکہ کا پڑھنا اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ بارہا تجربہ میں آیا ہے، جب کلمات سحر میں اثر ہو تو اس میں ہونا کیا تعجب کی بات ہے ؟ خصوصاً اس کے مطالب عالیہ نفس خواب غفلت سے بیدار کرنے اور دنیا اور اس کے مزخرفات سے بیزار کرنے اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت یاد دلانے میں عجب اثر پیدا کرتے ہیں۔ عرب کے سخت منکروں کو مختلف دلائل وبراہین سے قائل کیا مگر اس پر بھی وہ انکار و اصرار سے پیش آتے رہے، لیکن یہ جانتے تھے کہ جھوٹی قسم کھانے والا فلاح نہیں پاتا بلکہ برباد ہوجاتا ہے۔ اس لیے اب قسم کے ساتھ کلام شروع کیا اور طرز سخن کو بدل دیا، اس لیے یٰس کہہ کر قسم کھاتا ہے کہ والقرآن الحکیم کہ ہم کو اپنے اس حکمت سے مالا مال قرآن کی قسم ہے۔ اے محمد ﷺ تو ضرور ہمارے رسولوں میں ایک رسول ہے۔ علیٰ صراط مستقیم سیدھے رستہ پر ہے۔ یٰس سے اگر آنحضرت ﷺ مراد ہیں، جیسا کہ بعض مفسرین کا قول ہے، خواہ اس وجہ سے کہ یہ انسان کا مخفف ہے اور انسان سے انسان کامل مراد ہے جس کا مصداق آپ ہیں یا اس وجہ سے کہ یہ آپ کا نام ہے تو عبارت کے یہ معنی ہوئے۔ اے محمد ﷺ ہم کو قرآن حکیم کی قسم آپ رسول ہیں اور سیدھے رستہ پر ہیں اور قرآن کی قسم اس لیے کھائی کہ متکلم کے نزدیک جو چیز عزیز و قابل قدر ہوتی ہے، جب تک اس کی قسم نہیں کھائی جاتی مخاطب کو اعتبار نہیں ہوتا اور لطف یہ ہے کہ یہ کلام بظاہر تو قسم ہے مگر یہ بھی ایک برہان ہے جو لفظ حکیم سے سمجھی جاتی ہے، جو کتاب حکمت الٰہیہ سے پر ہو تہذیب و اخلاق و سیاست مدن ‘ تزکیہ نفس ‘ معاد و معاش کی اصلاح سب کچھ اس میں ہو، ایسے شخص سے ایسے ملک میں ظاہر ہونا دلیل قوی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس لیے اس کے بعد میں اس کی تشریح فرماتا ہے۔ تنزیل العزیز الرحیم یہ قرآن زبردست کا اتارا ہوا ہے، جو تمام بنی آدم کو اپنے اس قانون پر
Top