بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یسین
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة یسین ہے جو کہ اس کے ابتدائی لفظ سے ماخوذ ہے۔ اس کا دوسرا (ابوسعود ص 247 ج 4 و قرطبی ص 1 ج 15) نام سورة المعمۃ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ سورة دنیا و آخرت کی بہتری پر مشتمل ہے۔ مفسرین (السراج المنیر ص 335 ج 3) اس کا تیسرا نام دافعہ بیان کرتے ہیں کہ یہ برائی کو دور کرنے والی سورة ہے۔ اس کا ایک نام (السراج المنیر ص 335 ج 3) قاضیہ بھی ہے کو ین کہ اس کی تلاوت انسانی حاجات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ یہ سارے نام امام بیضاوی نے اپنی تفسیر (بیضاوی ص 276 ج 2) میں بیان کئے ہیں۔ یہ سورة مکی دور کے وسطی زمانہ میں سورة جن کے بعد نازل ہوئی۔ اس کی تراسی آیات اور پانچ رکوع ہیں۔ یہ سورة سات سو انتیس کلمات اور تین ہزار حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی چار بنیادی عقائد نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ ابتداء میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہے اور ساتھ رسالت کا بیان ہے۔ اس ضمن میں بہت سے تاریخی واقعات بھی ذکر کئے گئے ہیں۔ توحید خداوندی کا ذکر بڑے کمال طریقے سے کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ پورے طریقے سے مشرکین کا رد ہے اس سورة میں پورے دلائل کے ساتھ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں۔ مخلوق میں سے انسان ہزوں یا جن یا ملائکہ ، اولیاء ہوں یا اصفیا ، شمس و قمر ہوں یا دریا اور پہاڑ سب کے سب اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ وہ عالم الغیب اور علیم کل ہے۔ اس بات کو بڑے اچھے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کا ذکر بھی انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ چاروں مضامین آگے چل کر سورة الواقعہ میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ وہاں پر چھوٹی چھوٹی آیتوں میں مجازات (جزائے عمل) کا پہلو غالب ہے مگر یہاں پر تمام مضامین یکساں طور پرز دوسرے عنوانات کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔ احادیث میں اس سورة مبارکہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک (قرطبی ص 1 ج 15 و حقانی ص 119 ج 6 و جمل ص 501 ج 3 و خازن ص 2 ج 6) ہے ان لکل شئی قلب و قلب القران یسین ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن پاک کا دل سورة یسین ہے۔ انسانی قلب کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ یہ جسم کا ایک ایسا عضو ہے کہ اگر یہ درست ہے تو سارا جسم درست ہے اور اگر یہی عضو بگڑا ہوا ہے تو سارا جسم فاسد ہوتا ہے۔ گویا جسم کی درستگی کا مدار قلب کی درستگی پر ہے۔ سورة بقرہ کو اونٹ کی کوہان کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے کہ جس طرح کوہان اونٹ کا بلند ترین حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سورة بقرہ بھی قرآن کا بلند ترین حصہ ہے اور یہاں سورة یسین کو قرآن کا دل اس لیے کہا گیا ہے کہ ایمان دل میں ہوتا ہے عقیدے سے تعلق رکھنے والے جذبات اور محبت ، نفرت ، خوش اخلاقی ، بد اخلاقی ، ایمان ، کفر ، شرک ، نفاق وغیرہ کا تعلق دل سے ہے۔ گویا نجات اور فلاح کا مدار صحیح ایمان پر ہزے۔ اگر قلب میں ایمان صحیح ہوگا تو انسان کے حالات اس دنیا میں بھی درست ہوں گے اور آخرت میں بھی فوز و فلاح نصیب ہوگی اور اگر ایمان میں ہی خرابی ہے تو کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ غرضیکہ اللہ کی وحدانیت اور رسالت پر یقین ، اللہ کی کتاب پر ایمان ، حشر نشر کے واقعات پر یقین ، سب اس سورة میں مذکور ہیں۔ اس لیے اس سورة کو قرآن کا قلب کہا گیا ہے ، گویا کہ اس سورة میں کامیابی کے تمام اصول بیان کردیے گئے ہیں۔ اس سورة مبارکہ کی فضیلت میں مفسرین (قرطبی ص 2 ج 15 و حقانی ص 119 ج 6 و جل ص 501 ج 3) کرام مسند ابو یعلیٰ کے حوالہ سے یہ حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا من فرافی لیلۃ اصبح مغفورا لہ جو شخص رات کے وقت سورة یسین کی تلاوت کرے گا ، اس کو صبح کے وقت خدا تعالیٰ کی جانب سے بخشش و مغفرت کا پروانہ ملے گا یہ مسند احمد (مسند احمد وعمل الیوم والیل ص 2) (قرطبی ص 1 ج 15 و خازن ص 2 ج 6 و جمل ص 501 ج 3) میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی آتا ہے جسے امام نسائی نے عمل الیوم والیل میں نقل کیا ہے کہ سورة یسین قرآن کا دل ہے لا یقرء ھا رجل یرید اللہ والدار الاخرۃ الا غفرلہ جو شخص اس سورة کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کے گھر کی تلاش کے لیے پڑھے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور بخش دے گا۔ فرمایا (در منشور ص 256 ج 5 و ابن کثیر ص 563 ج 3) اقرء ھا علی موتاکم تم اسے اپنے قریب المرگ لوگوں کے پاس پڑھا کرو تاکہ انہیں صحیح ایمان نصیب ہو۔ اس سورة میں ایمان کے تمام اصول بیان کردیئے گئے ہیں۔ مسند بزار کے حوالے سے مفسرین کرام (حقانی ص 199 ج 6) یہ حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا لودوث انھا فی کل قلب انسان من امتی میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ یہ سورة میری امت کے ہر شخص کے دل میں ہو یعنی ہر شخص کو اسے حفظ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ صاحب تفسیر حقانی لکھتے ہیں (حقانی ص 119 ج 6) کہ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ سورة یسین پڑھنے سے اللہ تعالیٰ آمدہ سختی کو دور کردیتے ہیں اور موت کے وقت یہ سورة پڑھنے سے روح آسانی سے نکلتی ہے اور ایمان بھی نصیب ہوتا ہے۔ مفسر (طبری ص 148 ج 22 و ابن کثیر ص 563 ج 3 و زاد المسیر ص 3 ج 7) حقانی (رح) یہ بھی لکھتے ہیں کہ زندگی کی مہمات یعنی عام اہم مواقع پر اس سورة کی تلاوت اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ حروف یسین یسین حروف مقطعات میں سے ہے۔ مفسرین کرام نے ان حروف کے مختلف معانی بیان کئے ہیں۔ بعض یسین کو اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارکہ میں شمار کرتے ہیں۔ اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو پھر کسی شخص کا نام یسین نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء مختصہ میں سے ہے اور ایسے اسماء کا اطلاق مخلوق پر نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی دیگر اسماء رحمان ، خالق اور اللہ وغیرہ ہیں جو کسی انسان کے نام نہیں ہوسکتے۔ البتہ بعض اسمائے ربانی ایسے بھی ہیں جو کسی حد تک مخلوق کے لیے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً رحیم ، کریم ، مالک ، عالم ، رئوف وغیرہ اور اگر یسین کو اللہ کے اسمائے مختصہ میں شمار نہ کیا جائے تو پھر اس کا اطلاق کسی آدمی پر بھی ہزوسکتا ہے مگر اس کے معنی کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ جب اسی نام کو خدا تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کا اطلاق اس طرح ہوگا جس طرح اس کی شان کے لائق ہے اور اگر اس کا اطلاق کسی انسان پر کیا جائے تو اس کی مناسبت انسان کی حالت کے ساتھ ہوگی۔ مثلاً رئوف کا نام اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر دونوں جگہ مفہوم مختلف ہوگا۔ جب صفت رافت کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے گا ، تو معنی یہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ مہربانی اور فیضان فرماتا ہے اور جب یہ لفظ کسی انسان کے لیے استعمال کیا جائے گا تو وہاں پر رافت سے مراد درد دل اور شفقت ہوگی جو کسی کی خستہ حالت دیکھ کر انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور پھر ایسا شخص ضرورت مند کی حاجت براری بھی کرتا ہے۔ دل میں درد پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسوب نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کا تعلق مادیت سے ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات تمام مادی تصورات سے پاک ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں (روح البیان ص 364 و کشاف ص 3 ج 4 و زاد المسیر ص 4 ج 7 و صفوۃ التفاسیر ص 5 ج 3) کہ یسین سورة کا نام ہے اور بعض ( زاد المسیر ص 3 ج 7 و فتح القدیر ص 358 ج 4 و مدارک ص 2 ج 4 والاتقان ص 30 ج 2 والبحر المحیط ص 323 ج 7) کہتے ہیں کہ یہ حضور ﷺ کا نام مبارک ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح طہ حضور ﷺ کا نام ہے۔ بعض (خازن ص 2 ج 6 و تفسیر المراغی ص 145 ج 22 والبحر المحیط ص 323 ج 7 و معالم التنزیل ص 200 ج 3) یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ یا اور سین دو حروف کا مرکب ہے اور اس کا معنی ہے ” اے انسان “ عرب کے مشہور قبیلہ بنی طی کے ہاں اس لفظ کا یہی معنی لیا جاتا ہے۔ بعض (تفسیر الثالبی ص 3 ج 4 و در منشور ص 258 ج 5) فرماتے ہیں کہ یہ معنی حبشہ کی زبان میں لیا جاتا ہے ، گویا یہ انسان سے خطاب کیا گیا ہے۔ بعض نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یا کا اشارہ یوم میثاق یعنی اس دن کی طرف ہے جب اللہ نے بنی آدم کی تمام ارواح سے عہد لیا تھا فرماتے ہیں کہ س کا اشارہ راز کی طرف ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا راز۔ بعض یہ بھی فرماتے (خازن ص 2 ج 6 و مظہری ص 71 ج 8 والاتقان ص 30 ج 2 و فتح القدیر ص 360 ج 4) ہیں یسین حضور ﷺ کی طرف خطاب ہے اور معنی یہ ہے یا سید البشر یعنی اے بنی نوع انسان کے سردار۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے خود فرمایا انا سید البشر انا سید ولد ادم یعنی میں تمام نسل انسانی کا سردار ہوں ، فرمایا یہ بات میں فخر سے نہیں کہتا بلکہ یہ تو میرے اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھے اس منصب پر فائز فرمایا ہے۔ قیامت والے دن جب تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے تو حضور ﷺ کی قیادت عامہ کا ظہور اس وقت ہوگا اور ساری مخلوق جان لے گی کہ آپ واقعی سید البشر ، سید الثقلین اور سید ولد آدم ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یسین کے تینوں حروف ، سی سی اور ن میں شرائط ہوتی ہیں اور اس سے مراد ایک خاص قسم کا نور ہے جو کائنات میں سرایت کر رہا ہے۔ اس نور کا نزول قرآن پاک اور اس سورة مبارکہ کے ذریعے ہو رہا ہے اور اسی نور سے کائنات کی ہدایت اور راہنمائی کا پروگرام سامنے آرہا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ کا آغاز حروف مقطعات سے کیا ہے۔ یسین اور اس کے معانی کی طرف میں نے اشارہ کردیا ہے ویسے جلالین (جلالین ص 2 ج 1) والے بزرگ فرماتے ہیں کہ حروف مقطعات کے بارے میں زیادہ سلامتی والا پہلو یہی ہے کہ اللہ اعلم بمردہ بذلک امنا وصدقنا اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے۔ اس سے جو بھی مراد ہے ہمارا اس پر ایمان ہے لہٰذا ان حروف کے معانی میں زیادہ کرید نہیں کرنی چاہئے۔ قرآن پاک کی حقانیت سورۃ ہذا کا مضمون قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت سے شروع کیا گیا ہے۔ آگے رسالت کے بیان میں تاریخ رسالت کے کئی واقعات آئیں گے اور ساتھ ساتھ محاسبہ اعمال کا ذکر ہوگا۔ ارشاد ہوتا ہے والقران الحکیم قسم ہے حکمت والے قرآن کی ، یعنی قرآن پاک کا پروگرام قطعی اور یقینی ہے اور اس میں شک و تردد والی کوئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی خلاف واقعہ بات ہے۔ یہ حکیم ہے کہ اس کی ہر بات مبنی بر حکمت ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو وحی الٰہی کے ذریعے نازل ہوا اور یہ کلام انسانی ذرائع علم سے بلند تر ہے۔ حکیم سے مراد مستحکم بھی ہزوسکتا ہے یعنی قسم ہے مستحکم اور پکے قرآن پاک کی۔ اس کی ہر بات پختہ ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سورة بقرہ کی ابتداء میں فرمایا کہ یہ ایسی کتاب ہے لاریب فیہ جس میں کسی قسم کا شک اور تردد نہیں کیا جاسکتا۔ تصدیق رسالت اگلی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور رسول کی رسالت کی تصدیق کی ہے اور اس کے بعد پھر قرآن پاک کے نزول اور مقصد نزول کا ذکر ہوگا۔ ارشاد ہوتا ہے انک لمن المرسلین بیشک آپ اللہ کے رسولوں میں سے ہیں۔ گزشتہ سورة میں گزرچکا ہے کہ مشرکین مکہ حضور ﷺ کو اللہ کا رسول تسلیم نہیں کرتے تھے اور اس معاملہ میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے تھے۔ چونکہ مشرک لوگ انکار رسالت میں شدید تھے تو اللہ نے یہاں پر تصدیق رسالت بھی اسی قدر پختہ طریقے سے قسم اٹھا کر کی یعنی قسم ہے حکمت والے یا مستحکم قرآن کی کہ بلاشبہ آپ اللہ کے رسولوں میں سے ہیں اور سلسلہ رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ خاتم النبیین ہیں ، سید ولد آدم ہیں ، انسان کامل ہیں اور تمام انبیاء کے بھی نبی ہیں۔ ساتھ یہ بھی فرمایا علی صراط مستقیم آپ اللہ کے قائم کردہ بالکل سیدھے راستے پر ہیں۔ آپ اسی شاہراہ پر چل رہے ہیں جو خطیرۃ القدس اور اللہ کی رحمت کے مقام تک جاتی ہے۔ آپ کا قول ، فعل ، عمل اور عقیدہ سب کچھ صحیح ہے۔ آپ بالکل صراط مستقیم پر ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا کہ آپ تو بلاشبہ صراط مستقیم پر ہیں۔ اور ساتھ ساتھ وانک لتھدی الی صراط مستقیم (الشوریٰ 52) اور دوسروں کی بھی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتے ہیں تاکہ وہ بھی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ مقصد نزول قرآن اللہ نے ابتدائی آیت میں جس قرآن حکیم کی قسم اٹھا کر حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی دی تھی ، اس قرآن کے متعلق فرمایا تنزیل العزیز الرحیم ، یہ غالب اور ازحد مہربان خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اگر اس کی مہربانی شامل حال نہ ہوتی تو انسان ہدایت الٰہی سے محروم رہتے۔ اللہ نے یہ قرآن نازل فرما کر بڑا احسان فرمایا۔ سورة ابراہیم کی ابتداء میں نزول قرآن کی غایت یہ بیان کی گئی ہے لتخرج الناس من الظلمت الی النور (آیت 1) تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئیں۔ لوگ اخلاقی ، روحانی ، مادی غرضیکہ ہر قسم کے اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کہیں گمراہی کے اندھیرے ہیں تو کہیں لہو و لعب کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے اس وقت مادیت کا کلوروفارم سونگھ رکھا ہے۔ مرنے کے بعد یہ نشہ اتر جائے گا تو پتہ چلے گا کہ ہم دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نزول کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے لتنذر قوما ما انذر ابائوھم فھم غفلون تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈراویں جن کے آبائو اجداد کو نہیں ڈرایا گیا ، اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں سے بنی اسماعیل مراد ہیں کہ اس قوم میں قریباً دو ہزار سال تک کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔ بنی اسرائیل میں تو پے در پے نبی آتے رہے مگر بنی اسماعیل میں آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوا۔ بنی اسماعیل کے ہزاروں خاندان اور آگے ہزاروں شاخیں تھیں۔ یہ وسیع سلسلہ نسب ہے جو عرب میں اور عرب سے باہر خراسان کے پرلے کناروں تک پھیلا ہوا تھا ، مگر قریب زمانے میں ان کے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا تھا۔ اسی لیے فرمایا کہ اے اللہ کے آخری نبی ! آپ ان لوگوں کو ڈرا دیں جن کے پاس زمانہ قریب میں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ، ساتھ یہ بھی فرمایا لقد حق القول علی اکثرھم کہ ان میں سے اکثر پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے فھم لا یومنون کہ آپ کی تمام تر مساعی کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کی اکثریت کفر و شرک میں ہی مبتلا رہے گی۔ چناننچہ ان کے خلاف بڑی جنگیں لڑی گئیں ، ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر یہ لوگ نابود تو ہوگئے مگر ایمان نہیں لائے۔ اب اگلی آیات میں اللہ نے ہدایت اور گمراہی کی حکمت اور فلسفہ بیان فرمایا ہے۔
Top