بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰسٓ
یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ۔ اِنَّـکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْن۔ َ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (یٰسٓ: 1 تا 4) (یٰسٓ۔ قسم ہے قرآن حکیم کی۔ کہ آپ یقینا رسولوں میں سے ہیں۔ آپ سیدھے راستے پر ہیں۔ ) یٰسٓ، حروفِ مقطَّعات میں سے ہے۔ ان پر بحث ہم سورة بقرۃ کے آغاز میں کرچکے ہیں۔ اس لحاظ سے بہتر یہی ہے کہ یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کے معنی اور مفہوم کو جانتا ہے۔ امام مالک اسے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام قرار دیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ( رض) سے ایک روایت اسی کی تائید میں ہے اور دوسری روایت یہ ہے کہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں، اے انسان۔ اور مراد اس سے نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ بعض مفسرین نے اسے ” یاسید “ کا مخفف بھی قرار دیا ہے۔ اس تاویل کی رو سے ان الفاظ کے مخاطب نبی کریم ﷺ ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی نبوت پر قرآن حکیم سے استدلال دوسری آیت میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ یقینا اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے ہیں۔ ہم اس سے پہلے ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ جس لفظ پر وائو قسمیہ داخل ہوتی ہے، اسے قسم کہتے ہیں اور اس کے بعد کا آنے والا جملہ جوابِ قسم یا دعویٰ کہلاتا ہے۔ اور یہ قسم اپنے جوابِ قسم یا دعویٰ کے لیے دلیل ہوتی ہے۔ یہاں قرآن کریم کو نبی کریم ﷺ کے رسول ہونے پر دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی قابل لحاظ بات یہ ہے کہ صرف قرآن کو دلیل یا گواہ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ قرآن حکیم کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے رسول ہونے پر ایک محکم دلیل یہ ہے کہ آپ اُمّیِ محض ہیں۔ آپ کا خاندان، آپ کی قوم اور آپ کا گردوپیش ازاول تا آخر اُمّی ہے۔ یعنی نہ آپ نے کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پائی اور نہ کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ اور نہ آپ کی قوم میں تعلیم و تعلّم کا رواج رہا، اور نہ آپ کے ماحول میں سیکھنے سکھانے کا چلن رہا، جس سے یہ شبہ کیا جاسکتا کہ آپ جو علم و دانش اور حکمت کی باتیں قرآن کریم کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور نظام زندگی پیش کررہے ہیں اس کا ایک فلسفہ ہے، اس میں نظم و ضبط ہے، اس میں انفرادی ضرورتوں کا حل بھی ہے اور اجتماعی ضرورتوں کا بھی۔ اس میں زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں مکمل ہدایات موجود ہیں۔ اور کوئی شعبہ دوسرے شعبے سے متصادم نہیں۔ اور پھر اس نظام میں آئین اور قانون بھی ہے، مکارمِ اخلاق بھی ہیں، معاشرت کے اصول بھی ہیں، معیشت کی بنیادیں بھی ہیں، سیاست کے آداب بھی ہیں، بین الاقوامی روابط بھی ہیں، عدالت کا باقاعدہ ایک ضابطہ ہے۔ غرضیکہ زندگی رواں دواں شکل میں کسی تصادم کے بغیر ہر ضرورت کو پورا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی حکیمانہ تعلیم کے لیے جس طرح کے الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے، جیسے اس کی ترکیب آرائی کی گئی ہے، اس میں جو فصاحت و بلاغت کارفرما دکھائی دیتی ہے اور پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ بعد کی آیت میں فرمایا گیا ہے آپ صراط مستقیم پر ہیں۔ یہ اِنَّ کی دوسری خبر ہے اور اس کا بغیر حرف عطف کے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم جس طرح آپ کے رسول ہونے کی دلیل ہے اسی طرح آپ کے صراط مستقیم پر ہونے کی بھی گواہی دے رہا ہے۔ کیونکہ اس راہ پر عقل و فطرت کا سایہ ہے۔ اس میں کہیں ایچ پیچ نہیں۔ اس کا ہر سنگ میل واضح اور اس کی منزل متعین ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی کتاب جس کی حکمت و دانش اور جس کی فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہے اور وہ ایک اُمّی شخص کی زبان سے ادا ہورہی ہے تو ایسے اُمّی شخص کو اگر اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم نہ کیا جائے تو اس سے بڑھ کر عقل اور فطرت کا کوڑھ اور کیا ہوگا۔ اور کج فکری اور کج روی کی اور دلیل کیا ہوگی۔ یہ بات یاد رہے کہ یہاں نہایت مؤکد انداز میں جس طرح آپ کے رسول ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کو خود اپنی رسالت سے متعلق کوئی شک تھا۔ بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ سورة مکی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مکی زندگی میں قدم قدم پر مخالفین آپ کی نبوت اور رسالت کو چیلنج کرتے تھے۔ اور بار بار آپ کو ان کے اعتراضات کا جواب دینا پڑتا تھا۔ چناچہ ایسی صورتحال میں لازمی بات تھی کہ سورة یٰسٓجیسی اہم سورة کے نزول کے وقت جس میں نہایت پرزور انداز میں اسلام کے بنیادی عقائد کا ذکر کیا جارہا ہے آپ کی رسالت کا اثبات کیا جاتا۔ اور وہ بھی خارجی دلائل سے نہیں بلکہ خود قرآن کریم سے، تاکہ بیک وقت ان دو بنیادی صداقتوں کو ثابت کرنے کا ذریعہ بن جاتا۔
Top