بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٓس !
1:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یسین سے مراد ہے محمد ﷺ کی ذات اقدس اور دوسرے لفظ میں یوں ہے : یامحمد (اے محمد ﷺ 2:۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر (رح) و بیہقی (رح) نے دلائل میں محمد بن الحنفیہ (رح) سے روایت کیا کہ یسین سے مراد ہے یا محمد (اے محمد ﷺ 3:۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یسین سے مراد ہے اے انسان۔ 4:۔ عبد بن حمید (رح) نے حسن عکرمہ اور ضحاک (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 5:۔ ابن جریر (رح) وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یسین سے مراد ہے اسے انسان حبشی زبان میں۔ 6:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے اشہب (رح) سے روایت کیا کہ میں نے مالک بن انس ؓ سے پوچھا کیا کسی کو یہ لائق ہے کہ وہ یسین نام رکھے ؟ تو انہوں نے فرمایا میں اسے مناسب نہیں سمجھتا اس کو چاہئے کہ اللہ کے اس قول (آیت) ” یس ٓ (1) والقرآن الحکیم “ (کو دیکھے) کہ فرماتے ہیں کہ میرا نام ہے اور اس کے ساتھ میں نے اپنا نام رکھا۔ 7:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یس ٓ (1) والقرآن الحکیم “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ قسم اٹھاتے ہیں جس چیز کے ساتھ چاہتے ہیں پھر اس آیت نے استدلال کیا (یعنی) (آیت) ” سلام علی ال یاسین “ (الصافات آیت 120) (یعنی آل یاسین پر سلام ہو) ان کی رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر سلام بھیجا ہے۔ 8:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے یحی بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یس ٓ (1) والقرآن الحکیم “ سے مراد ہے کہ وہ قسم کھاتے ہیں ہزار جہانوں کے ساتھ (آیت) ” انک لمن المرسلین “ (بلاشبہ آپ بھیجے ہوؤں میں سے ہیں) 9:۔ ابن مردویہ نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ یہ قسم ہے اس کے ذریعہ تیرا رب قسم کھاتا ہے اور فرماتا ہے ” یامحمد انک لمن المرسلین “ (اے محمد ! بلاشبہ آپ بھیجے ہوؤں میں سے ہیں) تو میری مخلوق کے دو ہزار سال پیدا کرنے سے پہلے بھی مرسلین میں سے تھا۔ 10:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یس ٓ (1) والقرآن الحکیم، (2) انک لمن المرسلین (3) سے مراد ہے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے جیسے کہ تم سنتے ہو کہ وہ (آیت) ” انک لمن المرسلین “ (البتہ بھیجے ہوؤں میں سے سیدھے راستے میں ہیں) صراط مستقیم سے مراد ہے (آیت) ” تنزیل العزیز الرحیم “ (وہ نازل کیا ہوا ہے عزیز ورحیم کی طرف) یعنی یہ قرآن (آیت) ” لتنذر قوما ما انذر آباء ھم “ (تاکہ آپ ایسی قوم کو ڈرائیے کہ جن کے والدین کو نہیں ڈرایا گیا) فرمایا کہ اس سے مراد قریش ہیں کہ عرب کے پاس محمد ﷺ سے پہلے کوئی رسول نہیں آیا نہ ان کے پاس اور نہ ان کے آباؤ اجداد کے پاس آپ سے پہلے کوئی رسول آیا۔
Top