بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰسین
اثبات رسالت محمد موکد بقسمے کہ آں دلیل نبوت است ومقرون بہ بیان تفاوت استعداد درقبول حق وہدایت وتہدید مکذبین نبوت ومنکرین قیامت قال اللہ تعالی۔ یس والقران الحکیم۔۔۔ الی۔۔۔۔ وکل شیء احصینہ فی امام مبین۔ (ربط) گزشتہ سورت میں کفار کے استکبار اور انکار کا ذکر تھا کہ وہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے منکر ہیں اور آپ ﷺ کو جھوٹا بتلاتے ہیں اب اس سورت میں آپ کی نبوت و رسالت کو قسم کے ساتھ بیان کرتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ یٰسین۔ اس کی مراد اور اس کے معنی کو اللہ ہی خوب جانتا ہے یٰسین حروف مقطعہ میں سے ہے جو خزانہ غیب کا ایک سرمکتوم ہے۔ جمہور صحابہ وتابعین کے نزدیک اس کی مراد سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں اور ابن عباس ؓ اور عکرمہ ؓ اور ضحاک (رح) اور حسن بصری (رح) اور سفیان بن عینیہ (رح) سے منقول ہے وہ کہتے تھے کہ یٰسین کے معنی یا انسان کے ہیں اس لئے آپ ﷺ سید البشر اور سید الانس والجان ہیں لفظ یٰسین یا انسان کا مخفف ہے اور انسان سے انسان کامل مراد ہے جس کا مصداق محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ قسم ہے اس قرآن حکیم کی جو غایت درجہ محکم اور سراپا علم و حکمت ہے اس کا ہر حرف علم اور حکمت کا منبع اور سرچشمہ ہے جہاں باطل اور سحر کا کہیں گذر نہیں اور نہ اس میں شعر و شاعری کا کوئی شائبہ ہے جس کو یہ نبی امی تم کو پڑھ کر سنا رہا ہے۔ اے نبی آپ ﷺ بلاشبہ خدا کے پیغمبروں میں سے ہیں اور سیدھے راستے پر ہیں جو سیدھا خدا تک پہنچانے والا ہے۔ ” صراط مستقیم “ سے دین اسلام اوردین حق مراد ہے اور یہ کفار ٹیڑھے راستہ پر ہیں یعنی دین باطل پر ہیں صراط مستقیم پر استقامت ہی منزل مقصود تک پہنچاتی ہے اور یہی قرآن حکیم جو علم اور حکمت سے بھرا پڑا ہے آپ ﷺ کی رسالت کی دلیل ہے اور آپ ﷺ کی گفتار اور کردار بھی آپ کی نبوت کی دلیل ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ حق پر ہیں اور سیدھی راہ پر ہیں اور یہی راہ خدا تک پہنچانے والی ہے جس نے اس راہ سے اعراض اور انحراف کیا وہ گمراہ ہوا۔ نکتہ : والقران الحکیم قسم ہے اور انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم۔ جواب قسم ہے۔ اس قسم سے ایک تو کفار کا رد مقصود ہے جو قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ یہ رسول نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں قسم کھا کر آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کو بیان کیا کہ آپ ﷺ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں دوم یہ کہ یہ قسم دراصل جواب قسم کی دلیل ہے۔ دلائل نبوت اور براہین رسالت میں سب سے بڑی دلیل آپ کی نبوت کی یہ قرآن حکیم ہے جس طرح توریت اور انجیل حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی نبوت کی دلیل تھی اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر یہ قرآن آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی دلیل ہے اور اس کے بعد کا یہ جملہ (علی صراط مستقیم) پہلے جملہ کی تاکید ہے اس لئے کہ جو رسول ہوگا وہ ضرور راہ راست پر ہوگا۔ ان آیات میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر آپ ﷺ کی رسالت کو بیان کیا قرآن حکیم آپ کی نبوت کی سب سے بڑی علمی دلیل ہے یہ آنحضرت ﷺ کی خاص خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت و رسالت کو قسم کے ساتھ بیان کیا آپ ﷺ کے سوا کسی اور نبی اور رسول کی رسالت کو قسم کھا کر نہیں بیان فرمایا اور اس کے بعد آنے والے جملہ لینذر قوما سے یہ بتلایا کہ نبی کا کام انذار ہے نہ کہ اجبار یعنی نبی کا کام فقط ڈرانے کا ہے باقی ہدایت دینا یہ اللہ کا کام ہے اور یہ قرآن حکیم ایسے رب العزت کی طرف سے تجھ پر نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ اس قوم کو عذاب خداوندی سے ڈرائیں جن کے قریبی آباء و اجداد قریبی زمانہ فترت میں کسی رسول کے ذریعہ خدا کے قہر سے نہیں ڈرائے گئے پس وہ حق اور ہدایت سے غافل اور بیخبر ہیں اس لئے وہ اس بات کے محتاج تھے کہ کوئی ہادی برحق آئے اور ان کو خدا کا راستہ بتلائے اور خواب غلفت سے ان کو بیدار کرے سو اس عزیز رحیم نے اپنی رحمت سے آپ ﷺ کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ تنبیہ : کوئی اس سے یہ خیال نہ کرے کہ آپ عرب کے لئے مبعوث ہوئے تھے آپ ﷺ تو سارے ہی عالم کے لئے مبعوث ہوئے مگر چونکہ آپ ﷺ عربی تھے اس لئے آپ کی دعوت اور خطاب کے بالذات اور اول مخاطب عرب تھے جو دوسروں کی نفی پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ آپ ﷺ کی عموم بعثت بیشمار آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔۔ کما قال تعالیٰ قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا وغیر ذلک من الایات جس میں ساری دنیا شریک ہے یہ کتاب حکمت جو اللہ نے آپ پر نازل کی ہے وہ بلاشبہ اپنے ذات سے تمام عالم کے لئے اور عرب وعجم کے لئے باران رحمت اور مشعل راہ ہے لیکن البتہ تحقیق ان میں سے اکثر لوگوں پر جو نفس اور شیطان کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں، پہلے ہی سے تقدیری طور پر۔ ان پر کلمہ برحق اور حکم محکم جاری ہوچکا ہے اور ” حق القول “ سے کلمہ حق لاملئن جہنم من الجنۃ والناس اجمعین مراد ہے اور اس کے ہم معنی ان الذین حقت علیہم کلمۃ ربک لا یؤمنون جیسی آیتیں مراد ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے کافروں کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے پس یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لہٰذا اے نبی آپ ﷺ ان کے ایمان نہ لانے سے رنجیدہ نہ ہوں یہ آیت ان لوگوں کے حق میں ہے جن کو اللہ تعالیٰ ازل میں جانتا ہے کہ یہ لوگ کفر اور عناد پر رہیں گے جیسے ابوجہل اور ابی بن خلف اور عتبہ اور شیبہ وامثالہم۔ ان میں سے اکثروں پر خدا کا کہا پورا ہوا جو ازلی بدنصیب اور دل کے اندھے تھے ان کو آفتاب ہدایت کی روشنی سے فائدہ نہ ہو۔ اب آئندہ آیات میں اس بات کی علت بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لائیں گے سو عالم اسباب میں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عناد کی وجہ سے توفیق خداوندی سے محروم کر دئیے گئے ہیں چناچہ فرماتے ہیں کہ تحقیق ہم نے اپنی کسی حکمت اور مصلحت سے ان بدبختوں کی گردنوں میں بڑے بھاری طوق ڈال دئیے ہیں اور ایسے چپکا اور چمٹا دئیے ہیں کہ وہ ان کی گردنوں سے نہ نکل سکیں پس وہ طوق ان کی گردنوں سے لپٹ گئے ہیں اور ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں جو خوب اچھی طرح ان کی گردنوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور وہ ان میں بہت سخت جکڑے ہوئے ہیں۔ پس ان کی حالت اور کیفیت یہ ہے کہ ان کے سر اوپر کو الل کر رہ گئے یعنی اوپر اٹھ گئے ہیں لہٰذا اب وہ اپنا سر نیچے نہیں جھکا سکتے اور ایسے سخت جکڑے ہوئے ہیں کہ اب وہ اپنا سر ہلابھی نہیں سکتے جیسے کسی جانور کو جب پانی یا چارہ دینا منظور نہیں ہوتا تو اس کا منہ بند کردیتے ہیں اور سر اس کا باندھ دیتے ہیں تاکہ وہ جانور نہ سر ہلا سکے اور نہ ہاتھ ہلا سکے یہی حال ان معاندین کا ہے جو نفسانیت اور عناد کے طوقوں میں ایسے جکڑ دئیے گئے ہیں کہ وہ حق کے سامنے سر نہیں جھکا سکتے ان آیات میں جو مثال ذکر کی گئی ہے وہ اس کافر کی ہے جس نے حق کو خوب پہچان لیا اور پھر بجائے اس کے قبول کرنے کے اس کی دشمنی اور عداوت پر تل گیا۔ اور علاوہ ازیں ہم نے ایک آڑ اور بڑی دیوار تو ان کے سامنے کھڑی کردی ہے اور ایک آڑ اور بڑی دیوار ان کے پیچھے کھڑی کردی ہے اور پھر اس کے علاوہ ہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ کما قال تعالی۔ وعلی ابصارہم غشاوۃ تاکہ آنکھ پس پردہ کی کسی چیز کو نہ دیکھ سکے۔ لہٰذا ایسی حالت میں یہ لوگ حق کو نہیں دیکھ سکتے جب آگے اور پیچھے سے دیوار حال ہو اور اوپر سے آنکھوں پر پردہ دال دیا گیا تو پھر راہ کیسے نظر آئے۔ ان آیات میں حق تعالیٰ نے ان کی شقاوت ازلیہ کی مثال بیان فرمائی ہے کہ فرض کرو کسی کے گلے میں اتنا بڑا طوق ہے کہ وہ ٹھوڑی تک اس میں جکڑا ہوا ہے تو لا محالہ اس کا منہ اوپر کو اللہ جائے گا اور وہ اپنے زیر قدم اور پاس کی راہ کو بلکہ کسی چیز کو بھی نہ دیکھ سکے گا اور مزید برآں جب آگے اور پیچھے بڑی بڑی دیواریں کھڑی کردی جائیں اور اوپر سے آنکھوں پر کوئی پردہ ڈال دیا جائے تو پھر دور اور نزدیک کی کسی چیز کے نظر آنے کی کوئی صورت نہیں۔ کفار کی اس کیفیت اور حالت کو بیان کرنے سے آنحضرت ﷺ کی تسلی مقصود ہے کہ آپ ﷺ ان کے ایمان لانے کی امید نہ رکھیں ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگ چکی ہے اور آنکھوں پر پردہ پڑچکا ہے۔ اور جب یہ لوگ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس حالت کو پہنچ گئے تو ایسوں کو عذاب الٰہی سے ڈرانا اور نہ ڈرانا سب برابر ہے یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اس لئے کہ اب ان میں ایمان کی صلاحت ہی باقی نہیں رہی اور یہ برابری ان کے حق میں ہے نبی کے حق میں نہیں نبی کو بہرحال انذار کا اجر ملے گا۔ اللہ کے علم ازلی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے بلکہ کفر پر مریں گے ایسے لوگوں کو انذار اور تبلیغ اتمام حجت کے لئے ہے ہاں البتہ آپ ﷺ کا ڈرانا صر ایسے شخص کو سود مند ہوسکتا ہے جس میں ایمان اور قبول حق کی کوئی صلاحیت تو موجود ہو اور وہ وہ شخص ہے کہ جو نصیحت کی پیروی کرے یعنی نصیحت کو سنے اور اس کے سمجھنے کی کوشش کرے اور سمجھ میں آجانے کے بعد اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور بغیر دیکھے غائبانہ خدا سے ڈرتا ہو۔ خدا سے بغیر دیکھے ڈرنا اور بغیر دیکھے آخرت اور قیامت کے احوال اور اہوال سے ڈرتا کہ دیکھئے آخرت میں مجھ پر کیا گزرے گی یہ خوف ہی طلب حق پر آمادہ کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ڈرانا ایسے ہی شخص کو سود مند ہوسکتا ہے کہ جو طالب حق ہو اور خدا سے ڈرتا ہو اور جو شخص سرے ہی سے خدا کا قائل نہ ہو یا اس کے دل میں خدا کا ڈر ہی نہ ہو اس کو ڈرانا اور نہ ڈرانا سب برابر ہے پس ایسے خدا ترس بندہ کو گزشتہ تقصیرات پر خدا کی مغفرت کی اور طاعات پر آئندہ زمانہ میں بڑے اچھے ثواب اور انعام کی خوشخبری سنا دیجئے جو اس کو اس عالم سے گذرنے کے بعد ملے گا۔ بیشک ہم قیامت کے دن مردوں کو دوبارہ زندہ کریں گے تاکہ دنیا میں انذار اور تبشیر کے ثمرہ کو ظاہر کریں اور یہ ثمرہ دوبارہ زندگی ہی میں ظاہر ہوگا اور ہم یعنی ہمارے کراما کاتبین ہمارے حکم سے ان کے اعمال کو لکھتے جاتے ہیں جو انہوں نے اپنی زندگی میں کئے اور ان آثار ونشانات کو بھی لکھتے جاتے ہیں جو انہوں نے اپنے مرنے کے بعد چھوڑے۔ آثار سے وہ اعمال مراد ہیں جن کا اثر مرنے کے بعد بھی باقی رہے جیسے علم دین کے بارے میں کوئی کتاب لکھی یا کوئی ناول اور ڈرامہ لکھا یا مسجد اور دینی مدرسہ بنا کر چھوڑا یا سینما اور کالج بنا کر چھوڑا۔ اسی کے مطابق جزا وسزا ملے گی۔ غرض یہ کہ لفظ آثار عام ہے خواہ وہ آثار حسیہ ہوں یا معنویہ، سب کے سب نامہ اعمال میں درج ہیں اور مذکورہ بالا تمام چیزیں ان الفاظ کے عموم میں داخل ہوں۔ حتی کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں جاتے وقت جو قدم زمین پر پڑے ہیں وہ بھی اس میں داخل ہیں ان پر بھی اجر ہے جیسا کہ بعض احادیث صحیحہ میں آیا ہے۔ دیارکم تکتب لکم اثارکم اس لئے کہ محققین کے نزدیک اثارہم سے مطلق آثار مراد ہیں خواہ وہ آثار حسی ہوں یا معنوی اس لئے اثارہم میں وہ نان قدم بھی داخل ہوں گے جو طاعت اور معصیت اور مسجد اور سینما کی طرف چلنے میں ظاہر ہوں۔ اور ہمارا علم اس قدر وسیع اور محیط ہے کہ ہم اس کتابت کے محتاج نہیں جو وقوع عمل کے بعد ہوئی ہے کیونکہ ہم نے تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی سے سب چیزوں کا علم ہے اور ہر چیز پہلے ہی سے ہمارے احاطہ علم میں ہے مگر جزاء اور سزا وقوع کے بعد ملتی ہے۔ ہر چیز وقوع سے پہلے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اور وقوع کے بعد نامہ اعمال میں لکھی ہوئی ہے۔ ” امام مبین “ سے لوح محفوظ مراد ہے جو کتاب اعمال کے علاوہ ہے جس میں بندوں کے اعمال لکھے جاتے ہیں اور جو قیامت کے دن بندوں کے ہاتھوں میں دئیے جائیں گے۔
Top