بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰس
خلاصہ تفسیر
یٰس (اس کی مراد اللہ ہی کو معلوم ہے) قسم ہے قرآن باحکمت کی کہ بیشک آپ منجملہ پیغمبروں کے ہیں (اور) سیدھے رستہ پر ہیں (کہ اس میں جو آپ کی پیروی کرے خدا تک پہنچ جائے نہ کہ جیسا کفار کہتے ہیں لست مرسلاً ، یعنی آپ رسول نہیں، یا کہتے تھے بل افتراہ یعنی آپ نے خود گھڑ لیا ہے، جس کے لئے گمراہ ہونا لازم ہے اور قرآن تعمیم ہدایت کے ساتھ آپ کی رسالت و نبوت کی دلیل بھی ہے کیونکہ) یہ قرآن خدائے زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے (اور آپ پیغمبر اس لئے بنائے گئے ہیں) تاکہ آپ (اولاً) ایسے لوگوں کو (عذاب خداوندی سے) ڈراویں جن کے باپ دادے (قریب کے کسی رسول کے ذریعہ سے) نہیں ڈرائے گئے تھے، سو اسی سے یہ بیخبر ہیں (کیونکہ گو عرب میں بعض مضامین شرائع رسل سابقہ کے منقول بھی تھے، جیسا اس آیت میں ہے (آیت) ام جاءھم ما لم یات اباءھم الاولین) یعنی کیا قرآن ان کے پاس کوئی ایسی چیز لایا ہے جو ان کے آباء کے پاس نہیں آئی تھی، یعنی دعوت توحید کوئی نئی چیز نہیں، یہ ہمیشہ ان کے آباء و اجداد میں بھی جاری رہی ہے، مگر پھر بھی نبی کے آنے سے جس قدر تنبہ ہوتا ہے محض اس کے احکام واخبار نقل ہو کر پہنچنے سے جبکہ وہ ناتمام اور متغیر بھی ہوگئے ہوں ویسا تنبہ نہیں ہوتا۔ اور اولاً ڈرانا آپ کا قریش کو تھا، اس لئے اس جگہ انہی کا ذکر فرمایا، پھر عام لوگوں کو بھی آپ نے دعوت فرمائی، کیونکہ بعثت آپ کی عام ہے اور باوجود آپ کی صحت رسالت و صدق قرآن کے یہ لوگ جو نہیں مانتے آپ اس کا غم نہ کیجئے، کیونکہ) ان میں اکثر لوگوں پر (تقدیری) بات ثابت ہوچکی ہے (وہ بات یہ ہے کہ یہ ہدایت کے راستہ پر نہ آئیں گے) سو یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاویں گے (یہ حال ان کے اکثر کا تھا اور بعض کی قسمت میں ایمان بھی تھا وہ ایمان بھی لے آئے اور ان لوگوں کی مثال ایمان سے دوری میں ایسی ہوگئی کہ گویا) ہم نے ان کی گردنوں میں (بھاری بھاری) طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ تھوڑیوں تک (اڑ گئے) ہیں جس سے ان کے سر اوپر کو الل گئے (یعنی اٹھے رہ گئے، نیچے کو نہیں ہو سکتے، خواہ اس وجہ سے کہ طوق میں جو موقع تحت ذقن رہنے کا ہے وہاں کوئی میخ وغیرہ ایسی ہو جو ذقن میں جا کر اڑ جاوے، اور یا طوق کا چکلا ایسا ہو کہ اس کی کگر ذقن میں اڑ جاوے۔ بہرحال دونوں طور پر وہ راہ دیکھنے سے محروم رہے) اور نیز ان کی مثال بعد عن الایمان میں ایسی ہوگئی کہ گویا) ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کردی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کردی جس سے ہم نے (ہر طرف سے) ان کو (پردوں میں) گھیر دیا سو وہ (اس احاطہ حجابات کی وجہ سے کسی چیز کو) نہیں دیکھ سکتے، اور (دونوں تمثیلوں سے حاصل یہ ہے کہ) ان کے حق میں آپ کا ڈرانا یا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، یہ (کسی حالت میں بھی) ایمان نہیں لائیں گے (اس لئے آپ ان سے مایوس ہو کر راحت حاصل کرلیجئے) بس آپ تو (ایسا ڈرانا جس پر نفع مرتب ہو) صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت پر چلے اور خدا سے بےدیکھے ڈرے (کہ ڈر ہی سے طلب حق ہوتی ہے اور طلب سے وصول، اور یہ ڈرتے ہی نہیں) سو (جو ایسا شخص ہو) آپ اس کو (گناہوں کی) مغفرت اور (اطاعت پر) عمدہ عوض کی خوش خبری سنا دیجئے (اور اسی سے اس پر بھی دلالت ہوگئی کہ جو ضلالت اور اعراض کا مرتکب ہو وہ مغفرت اور اجر سے محروم اور مستحق عذاب ہے، اور گو دنیا میں اس جزاء و سزا کا ظہور لازم نہیں، لیکن) بیشک ہم (ایک روز) مردوں کو زندہ کریں گے (اس وقت ان سب کا ظہور ہوجائے گا) اور (جن اعمال پر جزا و سزا ہوگی) ہم (ان کو برابر) لکھے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے جاتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑے جاتے ہیں (ماقدموا) سے مراد جو کام اپنے ہاتھ سے کیا اور آثارہم سے مراد وہ اثر جو اس کام کے سبب پیدا ہوا اور بعد موت بھی باقی رہا، مثلاً کسی نے کوئی نیک کام کیا اور وہ سبب ہوگیا دوسروں کی بھی ہدایت کا یا کسی نے کوئی برا کام کیا اور وہ سبب ہوگیا دوسروں کی بھی گمراہی کا۔ غرض یہ سب لکھے جا رہے ہیں اور وہاں ان سب پر جزا وسزا مرتب ہوجاوے گی) اور (ہمارا علم تو ایسا وسیع ہے کہ ہم اس کتابت کے بھی محتاج نہیں جو بعد الوقوع ہوئی ہے کیونکہ) ہم نے (تو) ہر چیز کو (جو کچھ قیامت تک ہوگا وقوع سے پہلے ہی) ایک واضح کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں ضبط کردیا تھا (محض بعض حکمتوں سے اعمال کی کتابت ہوتی ہے۔ پس جب قبل وقوع ہم کو سب چیزوں کا علم ہے تو بعد وقوع تو کیوں نہ ہوتا، اس لئے کسی عمل سے مکرنے یا پوشیدہ رکھنے کی گنجائش نہیں، ضرور سزا ہوگی اور لوح محفوظ کو واضح با عتبار تفصیل اشیاء کے کہا گیا ہے۔

معارف و مسائل
فضائل سورة یٰسین
حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یسین قلب القرآن، یعنی سورة یٰسین قرآن کا دل ہے اور اس حدیث کے بعض الفاظ میں ہے کہ جو شخص سورة یٰسین کو خالص اللہ اور آخرت کے لئے پڑھتا ہے اس کی مغفرت ہوجاتی ہے اس کو اپنے مردوں پر پڑھا کرو (رواہ احمد وا بوداؤد والنسائی وابن حبان والحاکم وغیرہم، کذافی الروح والمظہری)
امام غزالی نے فرمایا کہ سورة یٰسین کو قلب قرآن فرمانے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس سورة میں قیامت اور حشر و نشر کے مضامین خاص تفصیل اور بلاغت کے ساتھ آئے ہیں اور اصول ایمان میں سے عقیدہ آخرت وہ چیز ہے جس پر انسان کے اعمال کی صحت موقوف ہے۔ خوف آخرت ہی انسان کو عمل صالح کے لئے مستعد کرتا ہے اور وہی اس کو ناجائز خواہشات اور حرام سے روکتا ہے۔ تو جس طرح بدن کی صحت قلب کی صحت پر موقوف ہے اسی طرح ایمان کی صحت فکر آخرت پر موقوف ہے (روح) اور اس سورة کا نام جیسا سورة یٰسین معروف ہے اسی طرح ایک حدیث میں اس کا نام عظیمہ بھی آیا ہے (اخرجہ ابو نصر اسجزی عن عائشہ) اور ایک حدیث میں ہے کہ اس سورة کا نام تورات میں معمہ آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والے کے لئے دنیا و آخرت کی خیرات و برکات عام کرنے والی۔ اور اس کے پڑھنے والے کا نام شریف آیا ہے اور فرمایا کہ قیامت کے روز اس کی شفاعت قبیلہ ربیعہ کے لوگوں سے زیادہ کے لئے قبول ہوگی۔ (رواہ سعید بن منصور والبیہقی عن حسان بن عطیہ) اور بعض روایات میں اس کا نام مدافعہ بھی آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والے سے بلاؤں کو دفع کرنے والی اور بعض میں اس کا نام قاضیہ بھی مذکور ہے، یعنی حاجات کو پورا کرنے والی۔ (روح المعانی)
اور حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ جس مرنے والے کے پاس سورة یٰسین پڑھی جائے تو اس کی موت کے وقت آسانی ہوجاتی ہے۔ (رواہ الدیلمی وابن حبان، مظہری)
اور حضرت عبداللہ بن زبیر نے فرمایا کہ جو شخص سورة یٰسین کو اپنی حاجت کے آگے کر دے تو اس کی حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (اخرجہ المحاملی فی امالیہ، مظہری)
اور یحییٰ بن کثیر نے فرمایا کہ جو شخص صبح کو سورة یٰسین پڑھ لے وہ شام تک خوشی اور آرام سے رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے تو صبح تک خوشی میں رہے گا۔ اور فرمایا کہ مجھے یہ بات ایسے شخص نے بتلائی ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ (اخرجہ ابن الفریس، مظہری)
یٰس، اس لفظ کے متعلق مشہور قول تو وہی ہے جس کو اوپر خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے۔ کہ حروف مقطعات میں سے ہے، جن کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے عام بندوں کو نہیں دیا۔ اور ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ امام مالک نے فرمایا کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اور حضرت ابن عباس سے بھی ایک روایت یہی ہے کہ اسماء آلٰہیہ میں سے ہے۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ”اے انسان“ اور مراد انسان سے نبی کریم ﷺ ہیں۔ اور حضرت ابن جبیر کے کلام سے یہ مستفاد ہے کہ لفظ یٰسین نبی کریم ﷺ کا نام ہے۔ روح المعانی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا نام ان دو عظیم الشان حرفوں سے رکھنا، یعنی یا اور سین اس میں بڑے راز ہیں۔
یٰسین کسی کا نام رکھنا کیسا ہے
امام مالک نے اس کو اس لئے پسند نہیں کیا کہ ان کے نزدیک یہ اسماء آلٰہیہ میں سے ہے، اور اس کے صحیح معنی معلوم نہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ کوئی ایسے معنی ہوں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں، جیسے خالق، رازق وغیرہ البتہ اس لفظ کو یاسین کے رسم الخط سے لکھا جائے تو یہ کسی انسان کا نام رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں آیا ہے (آیت) سلام علیٰ آل یاسین (ابن عربی) آیت مذکورہ کی معروف قرآت لیاسین ہے مگر بعض قرأتوں میں آل یاسین بھی آیا ہے۔
Top