بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یس۔
رسول کی تعلیمات اور لوگوں کا رد عمل تشریح : اللہ نے قرآن کی قسم قرآن کی فضیلت کے لیے کھائی ہے۔ جیسا کہ کئی دفعہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اتنی مکمل اور بہترین کتاب ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں رہ گئی کہ اب کوئی اور کتاب بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے بھیجی جائے۔ پھر اس کو بھیجنے والا غالب اور مہربان ہے۔ غالب اس طرح کہ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں کہ جس کو بیان کرنا رہ گیا ہو۔ بلکہ اس میں تو ان تمام چھپی ہوئی اور آنیوالے زمانے کی باتیں بھی بڑی وضاحت اور آسان الفاظ میں بیان کردی گئی ہیں۔ مثلاً فرشتوں کے بارے میں، آخرت کے بارے میں، قیامت کے بارے میں، یہ سب علم الغیب ہے۔ مہربان اس لیے کہ اس نے زندگی کے ہر قدم کو وضاحت سے بتا دیا کہ لوگ لاعلمی میں نقصان نہ اٹھائیں اور ہر طرح سے شیطان کی شرارت سے بچ کر دنیاو آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔ پھر اس مبارک کتاب کو ایسے بہترین رسول کے ذریعہ بھیجا کہ جو کسی صورت بھی معمولی انسان نہیں بلکہ وہ محسن انسانیت ہیں۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ مدت دراز کے بعد نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ یعنی صدیاں بیت گئی تھیں کہ سر زمین عرب میں کوئی نبی نہیں بھیجا گیا تھا۔ اس لیے عرصہ دراز تک گمراہ رہنے کے باعث لوگوں کے دل و دماغ عقل و فہم اور سمجھ بوجھ سے بالکل ہی عاری ہوچکے تھے۔ انہوں نے جب آپ ﷺ سے توحید کا پیغام سنا تو سٹ پٹا گئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے بتایا کہ ان لوگوں کو ایمان کی طرف لانا کوئی آسان کام نہیں۔ انہوں نے کبھی ایسی ہدایت کی بات سنی ہی نہیں تھی۔ اس لیے آپ یہ سمجھ لیں کہ وہ کفر و گناہ کی دلدل میں گردنوں تک پھنسے ہوئے ہیں ان کے لیے ایمان کی روشنی سے منور ہونا یا ہدایت کا راستہ دیکھنا ممکن ہی نہیں وہ ایسے ہی کریں گے، ہرگز ایمان نہیں لائیں گے مگر پھر بھی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو تھوڑی سی عقل سمجھ رکھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ گو اللہ صاف دکھائی نہیں دیتا مگر ہے ضرور۔ تو پھر اللہ ایسے لوگوں کی مدد ضرور کرتا ہے جو تھوڑی روشنی رکھتے ہوں ان کی روشنی میں اضافہ اللہ اپنی مہربانی اور قدرت سے ضرور کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہمارا یہ پیغام ضرور پہنچا دو کہ اللہ زبردست قدرت والا ہے۔ وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور پھر اس دنیا میں نیک و بد کاموں کی سزا و جزا ضرور ملے گی۔ پھر ان کو یہ بھی بتاؤ کہ اللہ اس قدر عظیم، حکیم اور خبیر ہے کہ وہ ہر شخص کے ہر کام کو لوح محفوظ میں درج کرلیتا ہے۔ یہ دونوں باتیں کہ مرنے کے بعد زندہ کیے جائیں گے اور اللہ ہمارے کاموں کو دیکھ رہا ہے درج کر رہا ہے اور حساب کتاب کرے گا۔ یہ سب تو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ بڑے بڑے علماء نے قرآن میں سے دلیلیں لے کر ان باتوں کو واضح کرنے کی بڑی کوشش کی ہے۔ بشیر محمود صاحب اس مسئلہ کو یوں بیان کرتے ہیں۔ ” مادہ کبھی تباہ نہیں ہوتا بلکہ مختلف شکلوں میں تحلیل ہو کر بکھر جاتا ہے مگر اس کا ایک ایک ایٹم قیامت تک محفوظ رہے گا بلکہ وہ اپنے ساتھی ایٹم کو بھی یاد رکھتے ہیں جب بھی انہیں قریب آنے کا اتفاق ہو تو وہ ایک دوسرے کو پہچان بھی لیں گے۔ ہمارے جسم کا مادہ ایٹمز کا مجموعہ ہے۔ اس لیے قبر خواہ مٹی کی ہو، پانی کی ہو، یا آگ میں ہو عناصر کی حد تک جسم قائم رہتے ہیں۔ نفس بھی اپنے بکھرے ہوئے عناصر کو یاد رکھتا ہے اور جب بھی حکم ہوگا وہ دوبارہ اکٹھے ہو کر پھر سے محفوظ شدہ ڈیزائن کے مطابق زندگی کی محفل نشاط برپا کریں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (از قیامت اور حیات بعد الموت) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :” اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن یعنی لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے “۔
Top