بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Yaseen : 1
یٰسٓۚ
يٰسٓ ۚ
یٰسٓ
رکوع نمبر 1 ۔ آیات 1 تا 12: اسرار و معارف : سورة یس کے بیشمار فضائل ہیں جو مفسرین کرام نے لکھ دئیے ہیں اور احادیث مبارکہ میں ارشاد ہیں اسی کو قرآن حکیم کا دل قرار دیا گیا ہے کسی بھی ضرورت یا مصیبت میں پڑھ کر دعا کرنا اس سے رہائی کا باعچ ہوتا ہے۔ یس حروف مقطعات میں سے ہے۔ قسم ہے قرآن حکیم کی یعنی یہ پر از حکمت کتاب کہ انسانی زندگی کے بہترین انداز میں بسر کرنے کا پورا طریقہ و سلیقہ موجود۔ طب و حکمت۔ عقل و دانش۔ سائنس و ایجادات۔ کیمیا و مرکبات۔ تاریخ و حقائق اور آئندہ کی پیشگوئیاں سب کچھ اس ایک کتاب میں موجود جس کا ایک ایک لفظ حق۔ سچ اور کھرا ہے یہی سب سے بڑا گواہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں کہ ہر کام اور ہر بات میں وہی رائے درست اور وہی راہ سیدھی ہے جو آپ ارشاد فرما دیں اور اس کی یہ حقانیت اس بات کی دلیل بھی ہے کہ اسے اللہ نے نازل فرمایا ہے جو سب سے زبردست بھی ہے اور سب پر رحم کرنے والا بھی اور اس کے نزول کا مقصد بھی بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ ہدایت دکھانا ہے کہ جن کی کئی پشتوں میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر آپ ﷺ کی بعثت تک پوری انسانیت کے لیے کوئی نبی نہ تھا جس کے سبب لوگ غفلت میں گرفتار ہوگئے مگر آپ کی بعثت اور اتنی بڑی نعمت کے باوجود بھی کچھ لوگوں پر اللہ کی وعید صادق آئی اب انہیں ہدایت نصیب نہ ہوگی کہ گناہ اور جرائم سے دل پہ سیاہی بڑتی جاتی ہے حتی کہ وہ حد آجاتی ہے جہاں نہ صرف توبہ کی توفیق سلب ہوجاتی ہے بلکہ فکر و شعور میں ٹیڑھا پن آجاتا ہے اور بندہ قلبی اندھے پن کا شکار ہوجاتا ہے ان کی بھی مثال ایسی ہی ہے جیسے ان کے گلے میں بہت بڑے بڑے طوق پڑے ہوں جنہوں نے ٹھوڑیوں تک کو اوپر اٹھا رکھا ہو اور سرا اوپر ہی جھول رہے ہوں کہ راستہ دیکھ ہی نہ سکتے ہوں یا ان کے ہر طرف ایسی دیوار چن دی گئی ہو کہ انہیں کچھ نظر نہ آتا ہو۔ اور جب وہ دیوار اوپر سے ڈھانپ بھی دی جائے تو یہ بالکل تاریکی گھر گئے لہذا انہیں کچھ نظر نہیں آسکتا۔ یہ مثال ان کے اعمال بد کی ہے کہ بڑھتے بڑھتے انہوں نے ان کی چشم بصیرت کا ہر طرف سے گھیراؤ کرلیا۔ اللہ کریم نے یہ دیواریں چننے کی نسبت اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے کہ ہر طرح اجر تو وہ ذات واحد ہی مرتب کرتی ہے مگر اس کا سبب ان لوگوں کا کردار ہے لہذا آپ انہیں انجام بد کی خبر دیں تو بھی ان کا وہی حال ہے جو خبر نہ دینے سے ہوتا ہے کہ ان سے توفیق ایمان ضائع ہوچکی اب یہ ایمان نہ لائیں گے۔ ارشاد نبوی قبول کرنے کے لیے استعداد شرط ہے : آپ ﷺ کے ارشادات تو صرف وہ لوگ قبول کریں گے جن میں نصیحت قبول کرنے کی استعداد ہوگی تب وہ غائبانہ اور بن دیکھے اللہ کی عظمت و جلالت کے سامنے سر جھکا دیں گے اور ان کے دل میں اس بہت بڑے رحم کرنے والے پر فدا ہونے کا جذبہ جاگ اٹھے گا ایسے لوگوں کو بخشش کی بشارت دیجیے کہ اگر بتقاضائے بشری ان سے خطا بھی ہوگئی تو اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے وہ بخش دے اور ان کے نیک اعمال پر بہت ہی زیادہ اجر عطا فرمائے گا۔ یہ ہماری ذات اور قدرت کاملہ کا کام ہے کہ مردہ کو زندہ کرتے ہیں یعنی جس کی تخلیق وسعت کائنات میں بکھر کر اس کی خلاقی پہ شہادت دے رہی ہے وہی ذات مردوں کو زندہ کرے گی اور نہ صرف زندہ کریگی بلکہ ان سے حساب بھی لے گی اور اس معاملہ میں بھی اسے کسی کی احتیاج نہیں اس کا علم اس قدر وسیع ہے اس نے ان کے اعمال اور اعمال کے اثرات تک ہر شے پوری پوری شمار کرکے ان سے پہلے یعنی ان کے قبر میں پہنچنے یا میدان حشر میں حاضری سے پہلے لکھ رکھی ہے یہاں یہ ارشاد بھی فرما دیا کہ ہر عمل کا جو اثر اور نتیجہ ہوگا جیسے کسی نے کنواں راستہ مسجد مدرسہ یا نیک اور مسلم ریاست میں لوگوں کی بھلائی کا کوئی کام کیا جب تک اس کے اثرات رہیں گے اجر لکھا جاتا رہے گا ایسے ہی برائی کے کامون کی داغ بیل ڈالنے والے ان کے اثرات بھگتیں گے اور سب سے بڑا ظلم مسلمانوں کو غیر اسلامی طرز حکومت میں جکڑنا ہے بعد میں جب تک اس میں گرفتار رہیں گے اس کا اہتمام کرنے والوں کے اعمالنامے سیاہ ہوتے رہیں گے ۔ اعاذنا اللہ منہا۔ اور اپنی پناہ میں رکھے اور کافرانہ نظام کو تبدیل کرکے نفاذ اسلام کی توفیق عطا فرمائے۔
Top