Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 41
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
پھر کیا حال ہوگا جب بلاویں گے ہم ہر امت میں سے احوال کہنے والاف 31 اور بلاویں گے تجھ کو ان لوگوں پر احوال بتانے والا
31 یہ ما قبل کی تخویف کا تکملہ ہے یعنی جب قیامت کے دن گذشتہ امتوں کے منکرین کے خلاف ان کے انبیاء (علیہم السلام) گواہی دے رہے ہوں گے اور اے محمد ﷺ آپ اپنے زمانہ کے ان مشرکین و کفار کے خلاف گواہی دیں گے اس وقت ان کا کیا حال ہوگا۔ اس وقت ان کی حالت ناگفتہ بہ ہوگی اور شدت ہول اور خوف عذاب کی وجہ سے وہ خواہش کریں گے کہ زمین میں سما جائیں جیسا کہ اگلی آیت میں مذکور ہے کیف یکون حالھم اذا جئنا یوم القیمۃ من کل امۃ من الامم وطائفۃ من الطوائف بشھید یشھد علیھم بما کانوا علیہ من فساد العقائد و قبائح الاعمال و نبیھم (روح ج 5 ص 34) ۔ اس آیت میں آنحضرت ﷺ کیلئے لفظ شہید استعمال ہوا ہے جس سے اہل بدعت آپ کے ہر امتی کیساتھ حاضر و ناظر ہونے پر استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال صحیحہ نہیں کیونکہ شہید کے معنی یہاں رقیب اور نگہبان کے ہیں اور پھر یہ نگہبانی بھی آنحضرت ﷺ کی زندگی سے مخصوص تھی جیسا کہ صحیح بخاری (ج 2 ص 665) میں ہے کہحضور ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائیگا تو میں اللہ تعالیٰ سے عرض کروں گا یہ تو میرے امتی ہیں اس پر مجھے جواب دیا جائیگا کہ آپ کے جو بعد ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے وہ آپ کو معلوم نہیں تو :۔ فاقول کما قال العبد الصالح و کنت علیھم شھیداً ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (میں اس کے جواب میں وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کا نیک بندہ عیسیٰ (علیہ السلام) کہے گا کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان پر نگران رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا) اس لیے اس آیت سے آپ کے ہر زمانہ میں ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے پر استدلال درست نہیں لفظ شہید کی پوری بحث سورة بقرہ رکوع 17 کی تفسیر میں آیت وَ یَکُوْنُ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً کے تحت گذر چکی ہے۔
Top