Mufradat-ul-Quran - Yaseen : 8
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ
اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے کیے (ڈالے) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں اَغْلٰلًا : طوق فَهِىَ : پھر وہ اِلَى : تک الْاَذْقَانِ : ٹھوڑیاں فَهُمْ : تو وہ مُّقْمَحُوْنَ : سر اونچا کیے (سر الل رہے ہیں
ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے ہوئے ہیں) تو ان کے سر الل رہے ہیں
اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ۝ 8 جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ عنق العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ( ع ن ق ) العنق ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ غل الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] ( غ ل ل ) الغلل کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ ذقن قوله تعالی: وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء/ 109] ، الواحد : ذَقَنٌ ، وقد ذَقَنْتُهُ : ضربت ذقنه، وناقة ذَقُونٌ: تستعین بذقنها في سيرها، ودلو ذَقُونٌ: ضخمة مائلة تشبيها بذلک . ذ ق ن ) ذقن ۔ ( تھوڑی ) اس کی جمع اذقان ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء/ 109] اور ٹھوڑیوں کے بل گرنے پڑتے ہیں ( اور ) روتے جاتے ہیں ۔ ذقنتہ ۔ میں نے اس کی ٹھوڑی پر مارا ۔ ناقۃ ذقون وہ اونٹنی جو ٹھوڑی کے سہارے پر چلتی ہو ۔ پھر تشبیہ کے طور بڑے ڈول کو جو ایک جانب سے مائل ہوا سے دلو ذقوق کہ دیتے ہیں قمح قال الخلیل : الْقَمْحُ : البرّ إذا جری في السّنبل من لدن الإنضاج إلى حين الاکتناز، ويسمّى السّويق المتّخذ منه قَمِيحَةً ، والقَمْحُ : رفع الرأس لسفّ الشیء، ثم يقال لرفع الرأس كيفما کان : قَمْحٌ ، وقَمَحَ البعیر : رفع رأسه، وأَقْمَحْتُ البعیر : شددت رأسه إلى خلف . وقوله : مُقْمَحُونَ [يس/ 8] تشبيه بذلک، ومثل لهم، وقصد إلى وصفهم بالتّأبّي عن الانقیاد للحقّ ، وعن الإذعان لقبول الرّشد، والتأبّي عن الإنفاق في سبیل الله، وقیل : إشارة إلى حالهم في القیامة إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ وَالسَّلاسِلُ [ غافر/ 71] . ( ق م ح ) القمح ۔ خلیل نے کہا ہے کہ قمح اس گہیوں کو کہتے ہیں جو پکنے کے وقت سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک بالی کے اندر ہی رکھا جائے اور اس گہیوں سے جو ستو بنایا جاتا ہے اسے قمیحہ کہا جاتا ہے ۔ اور ستو کی مناسبت سے کوئی چیز پھابکنے کے لئے سراوپر اٹھانے کو القمح کہتے ہیں پھر محض سر اٹھانے پر ( خواہ کسی وجہ سے ہو قمح کہا جانے لگا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے قمح البعیر اونٹ نے ( سیر کے بعد حوض سے ) سر اٹھالیا اقمحت البعیر میں نے اونٹ کا سر اونچا کر کے پچھلی جانب باندھ دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مُقْمَحُونَ [يس/ 8] تو انکے سر الٹ رہے ہیں ۔ میں تشبیہ اور تمثیل کے طور پر ان کو مقمحون کہا گیا ہے ۔ اور اس سے مقصود قبول حق سے ان کی سر تابی اور سرکشی اور راہ خدا میں خرچ کرنے سے ان کے انکار کو بیان کرنا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قیامت کے دن ان کی اس حالت کی طرف اشارہ ہے جس کا تذکرہ آیت : ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ وَالسَّلاسِلُ [ غافر/ 71] جب کہ ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی ۔ میں پایا جاتا ہے ۔
Top