Tafseer-e-Madani - Yaseen : 8
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ
اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے کیے (ڈالے) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں اَغْلٰلًا : طوق فَهِىَ : پھر وہ اِلَى : تک الْاَذْقَانِ : ٹھوڑیاں فَهُمْ : تو وہ مُّقْمَحُوْنَ : سر اونچا کیے (سر الل رہے ہیں
بیشک ہم نے ڈال دئیے ان کی گردنوں میں ایسے بھاری بھر کم طوق جو ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں جن میں یہ (بری طرح) جکڑے ہوئے ہیں
9 منکرین و معاندین اللہ تعالیٰ کی سنت کی زد میں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -: سو ارشاد فرمایا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ ہم نے ڈال دیئے ان کی گردنوں میں بھاری بھرکم طوق "۔ یعنی ضد وعناد اور ہٹ دھرمی کے وہ طوق جنہوں نے ان کو حق سے محروم کر رکھا ہے۔ یہ طوق اگرچہ آج نظر نہیں آ رہے مگر کل قیامت کو جب اصل حقائق نظروں کے سامنے آجائیں گے تو اس وقت یہ طوق بھی سامنے نظر آئیں گے جو دنیا میں ان کے گلوں میں پڑے ہوئے تھے اور جن کی وجہ سے یہ لوگ حق اور ہدایت کی دولت سے محروم ہوگئے تھے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور " ہم نے ڈال دیئے " کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سنت اور ہمارا قانون اور دستور یہی ہے کہ جو کوئی اپنی رغبت اور چاہت سے ایسے کرتا ہے ہم اس کے ساتھ ایسے ہی معاملہ کرتے ہیں اور اس کو ادھر ہی دھکیل دیتے ہیں جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے کہ اس بارے کسی پر جبر نہیں بلکہ ہر ایک کا اپنا ارادئہ و اختیار ہے ۔ { نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہ جَہَنَّمَ وَسَآئَتْ مَصِیْرًا } ۔ (النساء :115) یعنی ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کو ہم ادھر ہی چلتا کردیتے ہیں جدھر وہ اپنی چاہت و خواہش کے مطابق خود چلنا چاہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بالآخر وہ جہنم میں پہنچ کر رہتے ہیں جو بڑا ہی برا ٹھکانا ہے۔ سو ایسے منکر اور معاند لوگ اللہ تعالیٰ کی سنت کی زد میں آئے ہوتے ہیں مگر ان کو اس کا احساس و شعور ہی نہیں ہوتا جو کہ خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 10 مستکبرین کے استکبار کی تصویر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے ان کی گردنوں میں ایسے بھاری بھرکم طوق ڈالے ہوئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں " جن میں یہ بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ " اقماح " دراصل اس وقت بولا جاتا ہے جب کہ کسی اونٹ کے سر کو پیچھے کی طرف اس طرح باندھ دیا جائے کہ اس کی گردن ایک خاص حد سے نہ نیچے ہوسکے نہ اوپر۔ سو یہ استعارہ ہے جو ان متکبر لوگوں کی اکڑی ہوئی گردنوں کے بارے میں اختیار فرمایا گیا ہے کہ جب ان لوگوں کے سر ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس طرح اوپر اٹھے ہوئے ہیں جس طرح کہ اس اونٹ کی گردن کو اس کے پیچھے کی طرف کس کر باندھ دیا جائے۔ تو پھر ان کو وہ سیدھی راہ آخر نظر ہی کیسے آسکتی ہے جو ان کے پیش پا افتادہ ہے ۔ " اَیْ مرفوعو الرؤس " ۔ (المراغی) ۔ " الذی یرفع راسہ و یَغُضُّ بَصَرَہ " ۔ (جامع البیان ) ۔ سو یہ ان کی اس محرومی کی تمثیل اور ان کے استکبار کی تصویر ہے جو ان کی اپنی اختیار کردہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان پر تھوپ دی گئی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ان کی گردنیں انکے اپنے کبر و غرور کی بنا پر ایسی اکڑی ہوئی اور اوپر کو اس طرح اٹھی ہوئی ہیں کہ یہ اپنے سروں کو ایک خاص حد اور خاص زاویئے سے نہ اوپر کرسکتے ہیں نہ نیچے۔ بلکہ ان کی گردنیں ہمیشہ تنی اور کسی رہتی ہیں جس سے یہ نہ زمین کی نشانیوں کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ آسمان کے عجائب کی طرف نگاہ اٹھا سکتے ہیں۔ تو پھر انکو حق اور ہدایت کی دولت ملے تو کیسے اور کیونکر ؟۔ سو جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، قدرت کی سنت اور دستور کے مطابق ان کی خواہشات اور ان کی عادات و تقالید کے پھندوں کو ان پر اس طرح مسلط کردیا جاتا ہے کہ وہ ان سے نکلنے ہی نہیں پاتے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد سے ان مستکبرین کے حال و مآل کی تصویر و تمثیل پیش فرما دی گئی ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top