Dure-Mansoor - Yaseen : 8
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ
اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے کیے (ڈالے) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں اَغْلٰلًا : طوق فَهِىَ : پھر وہ اِلَى : تک الْاَذْقَانِ : ٹھوڑیاں فَهُمْ : تو وہ مُّقْمَحُوْنَ : سر اونچا کیے (سر الل رہے ہیں
بلاشبہ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں، سو وہ اوپر ہی کو رہ گئے ہیں۔
14:۔ ابن جریر (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ابو جہل نے کہا اگر میں محمد ﷺ کو دیکھ لوں تو میں البتہ ضرور ایسا کروں گا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” انا جعلنا فی اعناقھم اغللا “ (کہ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے) سے لے کر ” لا یبصرون “ تک (کہ وہ نہیں دیکھیں گے) اور لوگ کہتے تھے کہ یہ محمد ﷺ ہیں اور وہ کہتا ہے وہ کہاں ہیں، وہ کہاں ہیں کہ وہ ان کو نہ دیکھ سکیں۔ 17:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” اغللا “ سے مراد ہے طوق پہننے سے لے کر تھوڑی تک (آیت) ” فھم مقمحون “ (تو ان کے سراوپر کو اٹھے ہوں گے) جیسے جانور کا سرلگام (کے کھینچنے) سے اوپر کو اٹھ جاتا ہے۔ 18:۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” انا جعلنا فی اعناقھم اغللا “ پڑھا۔ 19:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” مقمحون “ سے مراد ہے کہ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں تھوڑی کے نیچے۔ 20:۔ الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” مقمحون “ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ ” المقمح “ سے مراد ہے اپنی ناک کو اونچا کرنے والا (اور) اپنے سر کو جھکانے والابغیر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں ! کیا تو نے شاعر کا یہ قول نہیں سنا۔ ونحن علی جو انبھا قعود لغض الطرف کالابل القماح : ترجمہ : اور ہم اس کے اطرف میں بیٹھے ہوئے ہیں، اور ہم نظر کو اس طرح جھکائے ہوئے ہیں جیسے وہ اونٹ جو سر کو جھکائے ہوئے ہو۔ 21:۔ الخرائطی نے مساوی الاخلاق میں ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” انا جعلنا فی اعناقھم اغللا “ سے مراد ہے نحل کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہاتھوں کو روک دیا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے (آیت) ” الی الاذقان فھم مقمحون “ (پس وہ نہیں دیکھتے ہیں) 22:۔ عبدالرزاق (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انا جعلنا فی اعناقھم اغللا “ کے بارے میں روایت کیا کہ بعض قرأت میں یوں ہے : (آیت) ” انا جعلنا فی اعناقھم اغللافھی الی الاذقان فھم مقمحون “ (اور ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ تھوڑی تک اڑ گئے ہیں سو ان کے سر اوپر کو اچکے ہوئے ہیں) یعنی ہر بھلائی سے ان کو روک دیا گیا۔ 23:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فھم مقمحون “ کہ وہ اپنے سروں کو اٹھاتے ہوئے اور ان کے ہاتھ ان کے منہ پر باندھے ہوئے ہیں۔ 24:۔ عبد بن حمید (رح) نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے پڑھا (آیت) ” وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفہم سدا “ (اور ہم نے ان کے آگے اور ان کے پیچھے آڑ لگا دی) ” سدا “ سین کے رفع کے ساتھ پڑھا (آیت) ” فاغشینہم “ (کہ ہم نے ان کو ڈھانک دیا) یعنی عین کے ساتھ پڑھا۔ قتل کی سازش کرنے والوں کی ناکامی : 25:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قریش رسول اللہ ﷺ کے دروازہ پر جمے ہوئے اور سب آپ کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگے تاکہ وہ لوگوان کو تکلیف پہنچائیں آپ پے یہ معاملہ بہت بھاری گزرا جبرائیل (علیہ السلام) سورة یسین لے کر آئے اور آپ کو ان کی طرف نکلنے کا حکم فرمایا آپ نے مٹی سے ایک مٹھی بھری اور آپ اس سجدہ کو پڑھتے ہوئے نکلے اور ان کے سروں پر ڈال رہے تھے ان لوگوں نے آپ کو نہیں دیکھا اور آپ ان کے پاس سے گزر گئے ان میں سے جو بھی اپنے سرکو ہاتھ لگاتا تو مٹی کو پاتا کوئی آدمی ان کے پاس آیا اور کہا تم لوگ کس لئے بیٹھے ہو کہنے لگے ہم محمد ﷺ کا انتظار کررہے ہیں، اس نے کہا میں نے اس کو مسجد حرام میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کھڑے ہوجاؤ کہ تم پر جادو کردیا گیا۔ 26:۔ عبد بن حمید (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ قریش جمع ہوئے اور انہوں نے عتبہ بن ربیعہ کو بھیجا اور کہا کہ اس آدمی (یعنی محمد ﷺ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو تیری قوم کہتی ہے تو بڑی مصیبت لایا ہے کہ اس (دین) پر ہمارے آباؤ اجداد نہیں اور اس پر ہمارے عقلمند لوگ تیری اتباع نہیں کرتے اور تو نے جو یہ کام اس لئے کیا ہے کیونکہ تیری غرض چھپی ہوئی ہے اگر تو مال کا ارادہ رکھتا ہے تو تیری قوم عنقریب تیرے لئے جمع کردیے گی اور تجھ کو دیدے گی (لہذا) تو چھوڑ دے (اس دین کو) جس کا تو ارادہ رکھتا ہے اور تو لازم پکڑ اس دین کو جس پر تیرے ماں باپ تھے عتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے وہ باتیں کیں جو قریش نے حکم کیا تھا جب وہ اپنی بات سے فارغ ہوکرخاموش ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے یہ (آیت) ” بسم اللہ الرحمن الرحیم، حم ٓ (1) تنزیل من الرحمن الرحیم (2) ۔ (فصلت آیت 2) اس پر سورة کے اول سے پڑھا (پھر) یہاں تک کہ (آیت) ” فان اعرضوا فقل انذرتکم صعقۃ مثل صعقۃ عاد وثمود (اگر وہ اعراض کریں تو فرما دیجئے کہ میں تم کو اس کی بجلی کی کڑک سے ڈراتا ہوں جیسے عاد اور ثمود کی کڑک تھی) عتبہ لوٹ آیا، اور تمام واقعہ بیان کیا اور کہا مجھ سے انہوں نے ایسا کلام کیا ہے کہ نہ تو وہ شعر ہے اور جادو اور وہ عجیب کلام ہے اور نہ وہ لوگوں کا کلام ہے، تو وہ سب لوگ اس پر جھپٹ پڑے اور کہنے لگے کہ ہم ان کی طرف اکٹھے ہو کر جاتے ہیں جب انہوں نے اس کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے سامنے آگئے تو آپ (خود ہی) ان کے پاس تشریف لے گئے یہاں تک کہ آپ ان کے سروں پر کھڑے ہوگئے (یعنی ان کے سامنے کھڑے ہوگئے) اور پڑھا (آیت) ” بسم اللہ الرحمن الرحیم، یس ٓ (1) والقران الحکیم (2) ، ، اور یہاں تک کہ پہنچے (آیت) ” انا جعلنا فی اعناقھم اغللا “ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کیساتھ جکڑا اور ان کے آگے اور ان کے پیچھے سے رکاوٹ پیدا کردی آپ نے مٹی لی اور ان کے سروں پر پھینک دی پھر آپ ان کے پاس چلے گئے اور ان کو کبھی بھی پتہ نہ چلا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا وہ تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم نے کبھی کسی کو اس سے زیادہ جادوگر نہیں دیکھا تو دیکھ لو کہ اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ 27:۔ ابن بی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ قریش کے کچھ لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں آپس میں مشورہ کیا کہ ان پر حملہ کردیں۔ وہ لوگ آئے اور اس کام کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” من بین ایدیھم سدا “ یعنی ان کے آگے اندھیرا کردیا (آیت) ” سدا ومن خلفھم “ اور اس کے پیچھے بھی اندھیرا کردیا (آیت) ” فاغشینہم فھم لا یبصرون “ سو ہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اب وہ نبی کریم ﷺ کو نہیں دیکھتے۔ منجانب اللہ حفاظت کا انتظام : 28:۔ عبدالرزاق (رح) وعبدبن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ قریش میں سے بعض مشرک لوگ بعض سے یہ کہتے تھے کہ اگر میں نے محمد ﷺ کو دیکھ لیا تو میں ان کے ساتھ اس طرح اور اس طرح کروں گا۔ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور وہ لوگ ایک مسجد میں ایک حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے آپ ﷺ ان کے پاس سے کھڑے ہوگئے اور یہ آیت پڑھی (آیت) ” یس ٓ (1) والقرآن الحکیم (2) سے لے کر (آیت) ” لا یبصرون “ تک پھر آپ نے مٹی لی اور ان کے سروں پر ڈالنے لگے کسی آدمی نے اپنی نظر کو ان کی طرف نہیں اٹھایا اور نہ کوئی بات کی پھر نبی کریم ﷺ آگے بڑھ گئے اور انہوں نے اپنے سروں اور اپنی داڑھیوں سے مٹی جھاڑنا شروع کی (اور کہنے لگے) اللہ کی قسم ! نہ ہم نے سنا اللہ کی قسم نہ ہم نے دیکھا اللہ قسم نہ ہم نے سمجھا۔ 29:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا “ ( اور ہم نے ان کے آگے پیچھے آڑ بنا دی۔ یعنی ہم نے حق کو قبول کرنے سے ان کو روک دیا (آیت) ” فھم یترددون “ (یعنی وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں) (آیت) ” فاغشینہم فھم لا یبصرون “ اور ہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اب وہ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع حاصل کرسکتے ہیں۔ 30:۔ ابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) ابن زید (رح) نے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس آڑ کو ان کے اور اسلام اور ایمان کے درمیان رکاوٹ بنا دیا گیا (اب) وہ لوگ اس کی طرف نہیں پہنچ سکتے۔ اور یہ آیت پڑھی۔ (آیت) ” وسوآء علیھمء انذرتھم ام لم تنذر ھم لا یؤمنون “ (اور برابر ہے ان پر کہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، ایمان نہیں لائیں گے) یعنی اللہ تعالیٰ کے روک دینے کی وجہ سے وہ ایمان لانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ 31:۔ عبد بن حمید (رح) نے ابراھیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا “ یعنی سین کے نصب کے ساتھ۔ 32:۔ عبد بن حمید (رح) نے عکرمہ ؓ نے اس کو یوں پڑھا (آیت) ” فاغشینہم “ 33:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انما تنذر من التبع الذکر “ (پس آپ کو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت پر چلے) اتباع الذکر سے مراد ہے اتباع القرآن (یعنی جو قرآن کی تابعداری کرے) (آیت) ” وخشی الرحمن بالغیب “ (اور رحمن سے بن دیکھے ڈرے) یعنی اللہ کے عذاب اور اس کی آگ سے ڈرتے (آیت) ” فبشرہ بمغفرۃ واجر کریم “ سو آپ اس کی مغفرت اور عمدہ ثواب کی خوشخبری دے دیجئے یعنی جنت کی
Top