Mualim-ul-Irfan - Yaseen : 7
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ
اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے کیے (ڈالے) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں اَغْلٰلًا : طوق فَهِىَ : پھر وہ اِلَى : تک الْاَذْقَانِ : ٹھوڑیاں فَهُمْ : تو وہ مُّقْمَحُوْنَ : سر اونچا کیے (سر الل رہے ہیں
بیشک ہم نے کردیے ہیں ان کی گردنوں میں طوق ، پس وہ ٹھوڑیوں تک (اٹھے ہوئے ہیں) پس ان کے سر اوپر کو اٹھ رہے ہیں
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر کیا اور پھر ساتھ نبوت و رسالت کی تصدیق کی کہ حضور خاتم النبیین ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ پھر اللہ نے قرآن حکیم کے نزول کی غایت یہ بیان کی کہ تاکہ آپ اپنے اولین مخاطبین مشرکین مکہ کو ڈرا دیں جن کے آبائو اجداد کے پاس قریبی زمانہ میں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا مگر ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ آپ کی تمام تر مساعی کے باوجود ان لوگوں کی اکثریت ایمان سے محروم رہے گی۔ گلے کے طوق اب آج کی آیات میں ایمان نہ لانے والوں کی حالت کا تذکرہ کیا گیا ہے اور خوف خدا رکھنے والوں کے بعض اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ اس کمے بعد اللہ نے جزائے عمل کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے انا جعلنا فی اعناقہم غللا ہم نہ ماننے والوں کے گلے میں طوق ڈال دیتے ہیں۔ فھی الی الازقان اور یہ ان کی ٹھوڑیوں تک اٹھے ہوئے ہیں ، جس کی وجہ سے فھم مقمحون ان کے سر اوپر کو اٹھ رہے ہیں۔ ہاتھوں میں ہتھکڑی ، پائوں میں بیڑیاں اور گلے میں طوق ہونا سزا کی علامت ہے یعنی یہ شخص مجرم ہے جس کو سزا دی جارہی ہے اور یہاں جس طوق کا ذکر کیا گیا ہے وہ اتنا بڑا اور بھاری ہے کہ جب گلے میں پہنایا گیا ہے تو ٹھوڑی تک بھر گیا ہے جس کی وجہ سے اس کا سر اگلی طرف سے اوپر کو اٹھ گیا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ خواب میں ہتھکڑی یا بیڑی پہننا اچھائی کی علامت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دین میں پختہ ہے۔ البتہ اگر خواب میں کوئی دیکھے کہ اس نے گلے میں طوق پہن رکھا ہے تو یہ سخت ذلت کی نشانی ہے۔ آگے پیچھے دیواریں ایمان سے محروم رہنے والے لوگوں کی دوسری بدبختی اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے وجعلنا من بین ایدیھم سدا ہم نے ان کے آگے بھی دیوار کی رکاوٹ کھڑی کردی ہے ومن خلفھم سدا اور ان کے پیچھے بھی ایسی ہی رکاوٹ ہے فاغشینھم ہم نے ان کو اوپر سے ڈھانپ دیا ہے۔ فھم لا یبصرون لہٰذا وہ نہیں دیکھ سکتے۔ ظاہر ہے کہ جس کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں رکاوٹ کھڑی کردی جائے اور اوپر سے بھی کوئی خیمہ وغیرہ ڈال کر ڈھانپ دیا جائے تو اسے کسی طرف سے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ اللہ نے نافرمانوں اور گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کی یہ مثال بیان کی ہے کہ وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں اور انہیں کہیں سے بھی راستہ نظر نہیں آتا جس پر چل کر وہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ سرگرداں پھرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا وسواء علیہم انذرتھم ام لم تنذرھم لا یومنون آپ کی طرف سے ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ایسے لوگوں کے گلے میں غلط نظریات اور باطل رسوم کے طوق پڑے ہوئے ہیں۔ نفسانی خواہشات نے ان کو اگلی طرف سے روک رکھا ہے اور پیچھے سے مادی عیش و عشرت کی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا انہیں اصل منزل کی طرف جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ شاہ ولی اللہ کا فلسفہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اصطلاح میں یہ لوگ حجاب طبع اور حجاب رسم میں مبتلا ہیں۔ حجاب طبع سے مراد مادی ضروریات کا حجاب ہے ، گویا یہ لوگ اچھا کھانے ، اچھا پہننے ، اچھی رہائش ، اچھی سواری کی فکر میں ہی مبتلا رہتے ہیں۔ شاہ صاحب (رح) کے بقول یہ لوگ مادیت کے گارے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سامنے خواہشات کی دیوار ہے اور پیچھے مادیت کا گارا ہے۔ جب انسان مادیت کے خول سے باہر نکلتا ہے تو رسوم کی دلدل میں پھنس جاتا ہے جسے حجاب رسم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پھر وہ اپنے خاندان ، برادری ، علاقائی اور ملکی رسم و رواج کی طرف دیکھتا ہے کہ دوسرے لوگ کیا کر رہے ہیں تاکہ وہ بھی بلاسوچے سمجھے انہی کے پیچھے چلنا شروع کردے چناچہ جس طرح دوسرے لوگ شان و شوکت کے اظہار والے مکان بناتے ہیں۔ وہ بھی بنانے لگتا ہے ، جس طرح کی دھوم دھام سے وہ شادیاں کرتے ہیں ، یہ بھی ان کی نقالی کرتا ہے ، جس طرح وہ عرس مناتے ، قوالی کراتے ، قبروں کو پختہ بناتے ، اوپر غلاف چڑھاتے اور نذر و نیاز پیش کرتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی کرنے لگتا ہے۔ موت کی رسوم میں بھی یہ یخص اپنی قوم اور برادری کے نقش قدم پر چلتا ہوا حیثیت سے بڑھ کر کام کرجاتا ہے ، امیر لوگ تو اپنی دولت کے بل بوتے پر پیدائش ، شادی اور اموت کو دھوم دھام سے مناتے ہیں مگر ایک غریب آدمی بھی ان سے پیچھنے نہیں رہنا چاہتا۔ یہ حجاب طبع اور حجاب رسم کا طوق ہے جو اس کے گلے میں پڑا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے اس کا سر اوپر کو اٹھا ہوا ہے ، آگے اور پیچھے نفسانی خواہشات اور مادی عیش و عشرت کی دیواریں کھڑی ہیں جو اسے حقیقت ایمان سے واقف نہیں ہونے دیتیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی پوری زندگی انہی چکروں میں ختم ہوجاتی ہے مگر اسے توحید خالص سے شناسائی نہیں ہوتی۔ ان آیات سے بظاہر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی کسی انسان کے گلے میں طوق ڈال دیا ہے ، اس کے آگے پیچھے دیواریں کھڑی کرکے اوپر سے بھی ڈھانپ دیا ہے تو پھر اس سے صراط مستقیم پر چلنے کی امید کس طرح کی جاسکتی ہے اور اسے مکلف کیوں کر ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ابتداء ہی میں کسی شخص کے راستے میں مذکورہ رکاوٹیں کھڑی نہیں کردیتا بلکہ پہلے ہدایت کے جملہ اسباب مہیا کرکے اور ہدایت اور گمراہی کے اصول واضح کرکے اسے اختیار دیتا ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے جونسا راستہ چاہے اختیار کرلے۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں (بیضاوی ص ج) کہ اللہ نے انسان کی ہدایت کے تمام اسباب مہیا کردیے ہیں جن میں سے اولین سبب عقل جیسا جوہر کامل ہے۔ حدیث (مشکوۃ ص 430 بحوالہ بیہقی شعب الایمان) میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل کو بلا کر فرمایا کہ میں تیری وجہ سے ہی مواخذہ کروں گا اور تیری وجہ سے ہی گرفت کروں گا ، عقل بہت بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان غور و فکر کرکے اچھائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے۔ نیکی اور بدی کی پہچان کرتا ہے ، سن بلوغت کو پہنچنے پر انسان کی عقل بھی کامل ہوجاتی ہے لہٰذا اس وقت وہ مکلف بن جاتا ہے اور اپنے عقیدے اور عمل کا جوابدہ ہوجاتا ہے۔ اس پر قانون کی پابندی لازم ہوجاتی ہے اور خلاف ورزی پر ماخوذ ہوتا ہے۔ عقل کے بعد ہدایت کے دوسرے اسباب میں عقل کے خدام سماعت ، بصارت ، سونگھنا ، ٹٹولنا اور ذائقہ وغیرہ حواس ہیں جو جملہ معلومات جمع کرکے عقل کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر عقل ان کے درمیان فیصلہ کرتی ہے کہ کس چیز کو اختیار کرنا ہے اور کس کو چھوڑ دینا ہے۔ اسی طرح حواس باطنہ بھی اسباب ہدایت میں سے ہیں۔ اللہ نے انسانوں کو قوت وہمیہ ، خیالیہ ، حس مشترک ، قوت متفکرہ وغیرہ عطا کی ہیں جن کو بروئے کار لا کر انسان اچھائی اور برائی میں تمیز کرسکتا ہے۔ ان اسباب کے علاوہ اللہ نے انسان کو جسم اور صحت عطا فرمائی ہے۔ اپنے پیغمبر بھیجے اور کتابیں نازل کی ہیں۔ گویا ہدایت کے سامان مہیا کرنے کے بعد فرمایا۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (الکہف 29) جس کا جی چاہے ایمان قبول کرلے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرلے۔ اللہ تعالیٰ یہ اختیار سلب نہیں کرتا بلکہ قولہ ما تولی ونصلہ جھنم وسا ت مصیرا (النساء 115) جدھر کوئی جانا چاہتا ہے ادھر ہی کی توفیق دے دیتا ہے پھر جب کوئی غلط راستہ اختیار کرتا ہے۔ کفر ، شرک اور معافی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو اسے جہنم تک پہنچاتا ہے جو کہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ اسی لیے ایمان کو اپنے ارادے اور اختیار سے قبول کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی شخص نے اضطراری حالت میں ایمان کی تصدیق کردی تو وہ معتبر نہیں ہوگی ، بلکہ ایمان کی تصدیق وہ قابل قبول ہوگی جو ارادے اور اختیار سے کی جائے گی۔ ان تمام تر اسباب ہدایت کے باوجود جب کوئی شخص اپنے اختیار سے ہدایت کا راستہ قبول نہیں کرتا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے گلے میں طوق ڈال دیتا ہے ، آگے پیچھے دیواریں کھڑی کردیتا ہے اور اوپر سے بھی ڈھانپ دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عمر بھر بھٹکتا پھرتا ہے اور اسے راستہ نہیں ملتا۔ صراط مستقیم سیدھا راستہ تو ان لوگوں کو نظر آئے گا جن میں طلب ہوگی اور وہ اس کے لیے کوشش بھی کریں گے۔ اللہ کا فرمان ہے والذین جاھدوا فینا لنہدینھم سبلنا (العنکبوت 69) جو ہمارے راستے کی تلاش میں محنت کرتے ہیں ہم ان کے لیے ہدایت کا راستہ ضرور واضح کردیتے ہیں اور یہ راستہ اسی صورت میں ملے گا کہ سابقہ کفر ، شرک اور معاصی کو ترزک کردے۔ اپنی سابقہ کوتاہیوں پر تائب ہوجائے۔ جب ایسا ہوگا تو پھر عقل ، حواس ، کتابیں اور نذر سب کارگر ہوں گے اور اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی توفیق عطا کردے گا۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا انما تنذر من اتبع الذکر آپ کا ڈرانا ان لوگوں کے لیے مفید ہوسکتا ہے جو نصیحت کی پیروی کرتے ہیں۔ جو شخص نصیحت کو اچھا ہی نہیں سمجھتا اس کے لیے نصیحت کارگر نہیں ہوسکتی اور پھر نصیحت اس شخص کے لیے بھی کارآمد ہوگی وخشی الرحمن بالغیب جو خدائے رحمان سے بن دیکھے ڈرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے نہیں دیکھا ، نہ جنت دوزخ کو دیکھا ہے ، نہ فرشتوں کو دیکھا ہے اور نہ بعد میں آنے والوں نے اپنے انبیاء کو دیکھا ہے۔ یہ ایمان بالغیب ہی تو ہے۔ ہمارا اس پر بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ومالک ہے اور وہ ہمارا محاسبہ بھی کرے گا۔ ایسے ہی شخص کے لیے آپ کی نصیحت مفید ہوگی فرمایا فبشرہ بمغفرۃ واجر کریم ایسے شخص کے لیے بخشش اور عزت والے اجر کی خوشخبری سنادیں۔ اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی کوتاہیاں معاف فرمادے گا اور ساتھ عزت والا بدلہ بھی عطا فرمائے گا اور بندہ کامیاب ہوجائے گا۔ جزائے عمل کی منزل اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وقوع قیامت اور جزائے عمل کا ذکر فرمایا ہے انا نحن نحی الموتی بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے تاکہ ان کا حساب کتاب لے کر جزائے عمل کا فیصلہ کرسکیں اور اس کام کے لیے ونکتب ما قدموا ہم لکھتے ہیں جو کچھ انہوں نے اس زندگی کے دوران اگلی زندگی کے لیے آگے بھیجا۔ واثارھم اور ان کے نشانات بھی لکھتے ہیں تاکہ حساب کتاب کے وقت ہم ان کو ان کا سارا اعمال نامہ دکھاسکیں۔ اگرچہ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو علیم کل ہے اور وہ ازل سے لے کر ابد تک کی چیزوں کو بغیر لکھے بھی جانتا ہے مگر اس نے لکھنے کا ایک ضابطہ مقرر کردیا ہے جن کو دیکھ کر انسان اپنے کردہ اعمال کو پہچان لیں گے۔ اس مقصد کے لیے اللہ نے نگران اور محافظ فرشتے مقرر کیے ہوئے ہیں جو ہر انسان کے ہر عمل کو محفوظ کر رہے ہیں اور اپنے رجسٹروں میں درج کر رہے ہیں۔ آثار کی توضیح آگے بھیجے جانے والے تو وہ نیک یا بد اعمال ہیں جو انسان دنیا میں کماتے ہیں اور آثار سے مراد وہ نشانات ہیں جو انسان اپنے پیچھے اس دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں پیچھے رہ جانے والوں میں آثار اطاعت بھی ہیں اور آثار معصیت بھی۔ حضور علیہ الصلو والسلام کا ارشاد مبارک (مظہری ص 73 ج 8) ہے کہ جو شخص دنیا میں کوئی اچھی چیز چھوڑ جاتا ہے اس کا اجر اس کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے اور جو کوئی بری رسم چھوڑ جاتا ہے تو اس پر عمل کرنے والوں کا ایک ایک گناہ اس شخص کو بھی ملتا رہتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کا اعمال نامہ بند کردیا جاتا ہے۔ البتہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی برابر ملتا رہتا ہے۔ فرمایا ایک صدقہ جاریہ ہے کہ آدمی رفاہ عامہ کا کوئی کام کرگیا ہے کوئی مسجد یا مدرسہ یا سرائے بنوا گیا ہے یا کنواں لگوا گیا ہے تو اس کا ثواب اسے پہنچتا رہے گا۔ دوسری چیز نافع علم ہے۔ تقریر و تحریر کی صورت میں علم چھوڑ گیا ہے۔ قرآن و سنت کی توضیح ہے یا احکام دین کی تشریحات ہیں ، تو جب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اس کا ثواب جاری کنندہ کو بھی ملتا رہے گا۔ فرمایا تیسری چیز نیک اولاد ہے جو مرنے والے کے لیے بخشش کی دعائیں کرتی ہے ، یہ چیزیں آثار میں داخل ہیں جن کے متعلق یہاں فرمایا ہے کہ ہم ان کو بھی لکھتے ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں بنی سلمہ کے لوگ مسجد نبوی سے کچھ فاصلے پر رہتے تھے۔ مسجد کے قریب کچھ مکانات خالی ہوئے تو ان لوگوں نے وہاں منتقل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا ، تاکہ مسجد سے قریب ہوجائیں۔ حضور ﷺ کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنی جگہ پر وہیں ٹھہرے رہو کیونکہ تم جتنے قدم چل کر مسجد میں آتے ہو وہ لکھے جا رہے ہیں۔ جب تک دور سے آتے رہو گے تو زیادہ قدم لکھے جاتے رہیں گے ، لہٰذا تمہارا فائدہ دور رہنے میں ہی ہے۔ حدیث (مظہری ص 74 ج 8) کے الفاظ میں دیارکم تکتب اثارکم تم اپنے محلے میں ٹکے رہو کہ تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں غرضیکہ قدموں کے نشانات کو بھی حضور ﷺ نے آثار میں شمار کیا ہے۔ کسی بھی نیک کام کے لیے انسان چل کر جائے تو اس کے نقوش ہائے قدم کا حساب رکھا جاتا ہے اور اسے اجر ملتا ہے۔ فرمایا وکل شی احصینہ فی امام مبین ہم نے انسان کی ہر چیز کو کھلی کتاب میں شمار کر رکھا ہے جو کہ اللہ کے علم کا نمونہ لوح محفوظ ہے۔ یہ سارا اعمالنامہ قیامت والے دن پیش کیا جائے گا اور پھر اس کے مطابق جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔
Top