Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 8
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ
اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے کیے (ڈالے) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں اَغْلٰلًا : طوق فَهِىَ : پھر وہ اِلَى : تک الْاَذْقَانِ : ٹھوڑیاں فَهُمْ : تو وہ مُّقْمَحُوْنَ : سر اونچا کیے (سر الل رہے ہیں
بلاشبہ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے ہیں سو وہ اوپر ہی کو رہ گئے ہیں۔
اس کے بعد منکرین کے ایک عذاب کا تذکرہ فرمایا (اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ ) (الآیۃ) کہ ہم ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے یہ طوق ٹھوڑیوں تک ہیں (اور ہاتھ بھی اوپر ہی ان طوقوں میں بندھے ہوئے ہوں گے) لہٰذا ان لوگوں کی کیفیت ایسی ہوجائے گی کہ ان کے سر اوپر ہی کو اٹھے ہوئے رہ جائیں گے نیچے کو نہ جھکا سکیں گے۔ علامہ قرطبی ؓ (جلد 15: ص 9) نے بعض حضرات سے آیت کا یہ مفہوم نقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ اہل کفر کے ساتھ یہ معاملہ دوزخ میں ہوگا اور سورة المومن کی آیت کریمہ (اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْ اَعْنَاقِھِمْ وَالسَّلٰسِلُ ) سے استدلال کیا ہے، بظاہر یہ رائے ٹھیک ہے اس میں مجاز اور تمثیل کا ارتکاب نہیں کرنا پڑتا۔ آیات بالا کا شان نزول : اور صاحب روح المعانی نے بحوالہ دلائل النبوۃ حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن (مسجد میں) بلند آواز سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے قریش مکہ کو اس سے تکلیف ہوئی وہ لوگ جمع ہو کر آپ کے قریب آئے تاکہ آپ کو پکڑ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود ان کی پکڑ ہوگئی، ان لوگوں کے ہاتھ گردنوں تک پہنچ کر جام ہوگئے اور نظر آنا بھی بند ہوگیا۔ جب یہ حال ہوا تو نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ ہم آپ کو اللہ تعالیٰ اور رشتہ داری کے واسطہ دیتے ہیں دعا کیجیے کہ ہماری مصیبت دور ہوجائے، آپ نے ان کے لیے دعا کردی جس سے ان کی وہ حالت ختم ہوگئی اور (یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ) سے لے کر (اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) تک آیات نازل ہوئیں، لیکن ان میں سے ایک شخص بھی ایمان نہ لایا۔ اس قصہ میں یہ تصریح ہے کہ جب ان لوگوں نے آپ کو پکڑنے کا ارادہ کیا تو ان کی یہ حالت ہوئی کہ ان کے ہاتھ گردنوں سے چپک کر رہ گئے۔ 1 ؂ اگر دنیا میں بھی ایسا واقعہ ہوا ہو جو حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اور آخرت میں اس سے بڑھ کر ہوجائے تو اس میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ صاحب روح المعانی نے ایک قصہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن ابو جہل نے پتھر اٹھایا تاکہ آپ پر حملہ کرے، آپ نماز پڑھ رہے تھے، ابو جہل کا ہاتھ گردن تک اٹھا اور وہیں جاکر چپک گیا، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا، کیا دیکھتے ہیں کہ پتھر اس کے ہاتھ میں اور اس کا ہاتھ گردن سے چپکا ہوا ہے، ان لوگوں نے بڑی محنت اور مشقت سے اس کا ہاتھ گردن سے چھڑایا، پھر اس پتھر کو بنی مخزوم کے آدمی نے لے لیا جب وہ رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ کی روشنی ختم کردی اور وہ واپس لوٹا تو اس کے ساتھی اسے نظر نہ آ رہے تھے انہوں نے آواز دے کر اسے اپنے پاس بلالیا، اب تیسرا شخص اٹھا اس نے پتھر لیا اور یوں کہتا ہوا چلا کہ میں ان کا سر پھوڑوں گا، تھوڑا سا چلا کہ فوراً ایڑھیوں کے بل پیچھے لوٹا یہاں تک کہ گدی کے بل گرپڑا کسی نے کہا ارے تجھے کیا ہوا ؟ کہنے لگا کہ بہت بڑا حادثہ ہوگیا وہ یہ کہ میں جب ان کے قریب گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک بہت بڑا اونٹ ہے، ایسا اونٹ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، یہ اونٹ میرے اور ان کے درمیان حائل ہوگیا، پھر بتوں کی قسم کھا کر کہا اگر میں ان کے قریب چلا جاتا تو یہ اونٹ مجھے کھائے بغیر نہ چھوڑتا۔ یہ قصہ لکھ کر صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ (اگر اس قصے کو سبب نزول مانا جائے تو) طوق ڈالنا اور آگے پیچھے آڑ بن جانا یہ سب استعارہ ہوگا یعنی وہ تینوں حملہ کرنے والے پیچھے ہٹ گئے اور حملہ نہ کرسکے، ایسے بےبس ہوگئے جیسے کسی کا ہاتھ گردن سے بندھ جائے اور آنکھوں کی روشنی چلی جائے۔
Top