Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 8
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ
اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے کیے (ڈالے) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں اَغْلٰلًا : طوق فَهِىَ : پھر وہ اِلَى : تک الْاَذْقَانِ : ٹھوڑیاں فَهُمْ : تو وہ مُّقْمَحُوْنَ : سر اونچا کیے (سر الل رہے ہیں
ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے ہوئے ہیں) تو ان کے سر اُلل رہے ہیں
انا جعلنا فی اعناقھم اغللاً فھی الی الاذقان فھم مقمحون . ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے ہیں ‘ پھر وہ ٹھوڑیوں تک اڑ گئے ہیں ‘ سو ان کے سر اوپر کو اُ چکے ہوئے ہیں۔ مذکورہ آیت ابوجہل کے حق میں لاَ یُبْصِرُوْنَ تک نازل ہوئی۔ چناچہ لوگ ابوجہل سے کہتے تھے : یہ محمد ﷺ موجود ہیں (اب تم جو کہتے تھے ‘ وہ کر دکھاؤ) تو ابوجہل کہتا تھا : کہاں ہیں ‘ مجھے تو دکھائی نہیں دیتے۔ بغوی نے لکھا ہے : اس آیت کا نزول ابوجہل اور اس کے ایک مخزومی ساتھی کے حق میں ہوا۔ ابوجہل نے قسم کھا کر کہا تھا کہ میں نے جہاں بھی محمد ﷺ کو دیکھ پایا ‘ پتھر سے ان کا سر کچل دوں گا۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کو نماز کی حالت میں اس نے دیکھ لیا۔ اس کے پاس ہی پتھر بھی پڑا ہوا تھا ‘ اس نے رسول اللہ ﷺ کے سر پر مارنے کیلئے پتھر اٹھانا چاہا تو فوراً ہاتھ گرن سے چمٹ گیا اور پتھر چھوٹ کر ہاتھ پر گرپڑا۔ ابوجہل فوراً اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ کر آیا اور جو کچھ دیکھا تھا ‘ وہ بیان کیا اور بیان کرتے ہی گرپڑا۔ مخزومی شخص بولا : اب میں جا کر اسی پتھر سے محمد ﷺ کو قتل کروں گا۔ چناچہ پتھر مارنے کیلئے وہ حضور ﷺ کی طرف چلا ‘ آپ اس وقت بھی نماز پڑھ رہے تھے ‘ اللہ نے اس کو اندھا کردیا۔ حضور ﷺ کی آواز تو اس کو سنائی دیتی تھی مگر آنکھوں سے کچھ نہیں نظر آتا تھا۔ وہ بھی اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ آیا ‘ لیکن ساتھیوں میں سے بھی وہ کسی کو دیکھ نہ سکا۔ لوگوں نے اس کو آواز دی اور کہا : تو نے کیا کیا ؟ مخزومی نے کہا : مجھے تو وہ نظر ہی نہیں آئے ‘ ہاں ان کی آواز میں نے ضرور سنی مگر میرے اور ان کے درمیان کوئی ایسی چیز حائل تھی جیسے کوئی نر اونٹ ہو جو (حملہ کرنے کیلئے) دم ہلا رہا ہو۔ اگر میں ان کے قریب جاتا تو وہ اونٹ مجھے کھا جاتا۔ اس پر آیت اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ اَغْلاَلاً نازل ہوئی۔ فَھُمْ مُّقْمَحُوْنَ یعنی ٹھوڑیوں تک طوق ہونے کی وجہ سے ان کی گردنیں اوپر کو اچکی ہوئی ہیں ‘ آنکھیں بند ہوگئی ہیں ‘ کسی چیز کو دیکھ نہیں سکتیں۔ بیہقی نے دلائل میں بطریق سدی صغیر از کلبی از ابو صالح ‘ حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ قبیلۂ بنی مخزوم کے کچھ لوگوں نے باہم مشورہ کر کے یہ بات طے کی کہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کردیں ‘ ان مشوروں میں ابوجہل اور ولید بن مغیرہ بھی شامل تھے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور یہ لوگ آپ کی قراءت کی آواز سن رہے تھے۔ ساتھیوں کے مشورہ کے مطابق ولید بن مغیرہ ‘ رسول اللہ ﷺ کو قتل کردینے کے ارادہ سے چل دیا۔ جس جگہ رسول اللہ ﷺ نما زپڑھ رہے تھے ‘ وہاں تک پہنچ گیا لیکن آواز سننے کے علاوہ حضور ﷺ اس کو نظر نہیں آئے۔ واپس آکر اپنے ساتھیوں کو یہ بات بتادی ‘ یہ سنتے ہی دوسرے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور جہاں آپ نماز پڑھ رہے تھے ‘ وہاں تک پہنچ بھی گئے اور قراءت کی آواز بھی سنتے رہے لیکن حضور ﷺ نظر نہ آئے۔ آواز کی طرف بڑھتے تھے ‘ وہاں تک پہنچ بھی گئے تو آواز پیچھے سے آنے لگے ‘ پیچھے کی طرف آواز کی جانب آئے تو آواز آگے سے آنے لگی۔ آخر ناکام لوٹ آئے اور رسول اللہ ﷺ تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملا۔ یہی مطلب ہے آئندہ آیت کا
Top