Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 8
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ
اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے کیے (ڈالے) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں اَغْلٰلًا : طوق فَهِىَ : پھر وہ اِلَى : تک الْاَذْقَانِ : ٹھوڑیاں فَهُمْ : تو وہ مُّقْمَحُوْنَ : سر اونچا کیے (سر الل رہے ہیں
بلاشبہ ہم نے (گمراہی اور شیطان کی غلامی کے) طوق ان کی گردنوں میں ڈال دیئے جو ان کی ٹھوڑیوں تک آگئے ہیں پس ان کے سر پھنس کر رہ گئے ہیں
ان کے گلوں کے طوقوں کو دیکھو جو ان کی ٹھوڑیوں تک آگئے ہیں : 8۔ فرمایا جا رہا ہے کہ ان معاندین و مخالفین کی گردنوں میں ہم نے اپنے قانون مشیت کے مطابق ” طوق “ ڈال دیئے ہوئے ہیں یعنی ان کے تکبر اور ان کی نخوت کا یہ عالم ہے کہ ان کے بار بار اکڑنے اور تکبر کرنے کے باعث ان کی گردنیں اب اس طرح اکڑ چکی ہیں کہ وہ نیچے کی طرف دیکھ نہیں سکتے ‘ ان کی گدیوں میں شیطان موت گیا ہے اور انہوں نے اس کو پیار کی نشانی قرار دے دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کو شیطان سے پیار ہو اس کے ” لاہود “ کی اکڑاؤں کبھی ختم نہیں ہوتی مگر ہاں اس وقت جب اللہ کا ہاتھ بڑھ کر اس کو اس کی اکڑی ہوئی گردن سمیت پکڑ لے اور اس بات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ قرآن کریم نے جو ان کی حالت بیان کی ہے اس پر ذرا مزید غور کرو فرمایا (فھم مقمحون) اور (قمح) کا لفظ عرب اسی وقت بولتے ہیں جب وہ اونٹ کو حوض پر لے جاتے ہیں تاکہ وہ خوب پانی پئے لیکن اونٹ اس حوض اور اس کے پانی کی طرف دیکھتا تک بھی نہیں اور یہی حالت اونٹ کی اس وقت ہوتی ہے جب اس کی نکیل کو پیچھے کھینچ کر اس کو سر کے پیچھے لے جانے کے بعد جب ان کے پالان سے اس کو باندھ دیا جاتا ہے تو وہ اپنا سر آگے نہیں لاسکتا اور ظاہر ہے کہ اس جگہ بطور تشبیہہ اور استعارہ ہی کے یہ لفظ بولا گیا ہے اور یہ بات عام ہماری بول چال میں بھی کہی جاتی ہے کہ فلاں آدمی اب نیچے کی طرف دیکھ ہی نہیں سکتا ۔ اس نے کبھی نیچے دیکھا ہی نہیں وہ اوپر ہی اوپر کو دیکھتا ہے اور اس جگہ مطلب یہ ہے کہ ان کو ہم نے اس تالاب کے کنارے لاکھڑا کیا ہے جس تالاب میں سوائے ہدایت کے اور کوئی چیز ہی نہیں کہ یہ ذرا اس کی طرف توجہ کریں تو ہدایت کو پہنچ جائیں لیکن انہوں نے اس طرح ہدایت حاصل کرنے بلکہ اس کی طرف دیکھنے سے بھی انکار کردیا کہ گویا اس کو قبول کرنا تو درکنار وہ ہدایت کے چشمہ کو دیکھ بھی نہیں سکتے ، ان طوقوں کا ان کی ٹھوڑیوں تک ہونے کا مطلب بھی تشبیہہ یہی ہے کہ وہ اپنے سروں کو بالکل نہیں جھکا سکتے یعنی حق کی طرف اور ہدایت کی طرف وہ دیکھنے کے لئے بھی تیار نہیں کیونکہ قومی رسم و رواج ‘ خاندانی نخوت وتکبر ‘ دولت واقتدار کا نشہ ‘ وعزت ووقار کا بھوت ان کے سروں پر سوار ہے اور ہم چوما دیگرے نیست کی ڈینگیں وہ مار رہے ہیں ، مذہبی پشوائیت اور سیاسی لیڈری کے نشہ نے ان کو بدمست کردیا ہے پھر اونٹ بھی ہو اور مست بھی تو ظاہر ہے کہ اس پر وہی ہاتھ ڈال سکتا ہے جو اس کا مالک ہو آپ اور میں تو اسی میں نجات سمجھیں گے کہ ہم خیریت سے گزر گئے ۔
Top