Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 8
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ
اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے کیے (ڈالے) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں اَغْلٰلًا : طوق فَهِىَ : پھر وہ اِلَى : تک الْاَذْقَانِ : ٹھوڑیاں فَهُمْ : تو وہ مُّقْمَحُوْنَ : سر اونچا کیے (سر الل رہے ہیں
ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں پس ان کے سر اٹھے رہ گئے
انا جعلنا فی اعناقھم اغللال فھی الی الازقان فھم مقمحون (8) یہ ان ایمان نہ لانے والوں کے استکبار کی تصویر ہے کہ گویا ان کی گردنوں میں ایسے طوق پڑے ہوئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچتے ہیں جس کے سبب سے ان کے سر اس طرح اٹھے ہوئے رہ گئے ہیں کہ نہ وہ نیچے کی طرف جھک سکتے ہیں اور نہ اوپر ہی کی طرف اٹھ سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ و زمین کی نشانیاں دیکھ سکتے اور نہ آسمان کے عجائب ہی پر نگاہ ڈال سکتے۔ ان کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو ایسا بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم جگہ جگہ ارشاد کرتے آرہے ہیں، یہ ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی یہ حالت اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق ہوتی ہے۔ جو لوگ حق سے انحراف و اعراض کی یہ روش دیدہ و دانستہ اختیار کرلیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے آنکھیں بند کرکے زندگی گزارتے ہیں ان کے اوپر اللہ ان کی خواہشیں اور ان کے اعمال اسی طرح مسلط کردیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر کوئی تعلیم و تذکیر ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اسی حقیقت کی طرف کلا بلا ران علی قلوبھم ما کانو ایکسبون (المطففین : 14) میں ارشاد فرمایا ہے۔ ’ مقمح ‘ اصل میں اس اونٹ کو کہتے ہیں کہ جس کا سر پیچھے کی جانب اس طرح باندھ دیا گیا ہو کہ اس کی گردن ایک خاص حد سے نہ نیچے ہوسکے اور نہ اوپر۔ بالکل یہی حال اس شخص کا ہوتا ہے جس کے گلے میں آہنی طوق ڈال دیا جائے۔ وہ بھی اپنا سر نہ نیچے کرسکتا ہے نہ اوپر بلکہ ایک خاص زاویہ پر اس کے گردن تنی رہتی ہے۔ یہ جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، متکبرین کی تصویر ہے۔ اس طرح کے لوگ اپنے اوپر نیچے اور رہنے بائیں کی تمام نشانیوں سے بیخبر ہی رہتے ہیں۔ ان کو اپنی ’ انا ‘ کے سوا اور کسی چیز کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوتی۔
Top