Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! خدا سے ڈرتے رہو۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ۔
(35 ۔ 37) ۔ اوپر ان لوگوں کا ذکر تھا جو دنیا کے تھوڑے سے مال و متاع کے لالچ میں پھنس کر مرتد ہوگئے تھے اور راہزنی کرنے لگے تھے۔ اسی ذیل میں مسلمانوں کو ان آیتوں میں اس طرح کے خیالات سے روکا اور فرمایا کہ ہر ایمان دار کو اس طرح کی باتوں سے ہمیشہ پرہیز لازم ہے اور یہ بھی لازم ہے کہ ہر ایمان دار شخص ہاتھ سے پیر سے جان سے مال سے زبان سے غرض جس طرح ہو سکے خالص راہ خدا کے نیک کاموں میں لگا رہے تاکہ وہ نیک کام اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے حاصل کرنے کا ذریعہ قرار 2 ؎ پا سکیں پھر فرمایا کہ یہ باتیں جو بتائی گئیں ہیں یہی باتیں ایسی ہیں جن سے عقبیٰ میں انسان کی بہتری اور کامیابی کی صورت نکل سکتی ہے فِیْ سَبِیْلِہٖ کا یہ مطلب ہے کہ جو نیک کام خالص راہ خدا کی نیت سے نہ کیا جاوے گا بلکہ اس میں ریا کاری یا دنیا کے کسی اور مقصد کا دخل ہوگا ایسا کام نہ بار گاہ ِ الٰہی میں مقبول ہوسکتا ہے نہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے حاصل کرنے کا ذریعہ قرار پاسکتا ہے ابو داؤد اور نسائی میں ابی امامہ کی صحیح حدیث ہے جو اوپر گزرچکی ہے 3 ؎۔ اس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو کام خالص راہ خدا کی نیت سے نہ کیا جاوے گا وہ رائیگاں ہے بارگاہ ِ الٰہی میں اس طرح کا نیک کام ہرگز قبول نہیں ہوسکتا 4 ؎۔ یہ حدیث فِیْ سَبِیْلِہٖ کی گوتفسیر ہے جن لوگوں کا اوپر ذکر تھا آگے اس ذکر کو پورا کیا کہ وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو دنیا کے تھوڑے سے مال و متاع کے لئے ایسے کام کرتے ہیں جس سے وہ عقبیٰ کو ہاتھ سے دے کر وہاں کا ہمیشہ کا عذاب اپنے سر پر لیتے ہیں کیونکہ دنیا کے تھوڑے مال و متاع کی تو کیا حقیقت ہے جو وہ عذاب کا معاوضہ قرار پاسکتے وہ عذاب تو ایسا بھاری اور لازمی ہے کہ تمام دنیا کے مال و متاع کو ایک جگہ کیا جا کر اسی قدر مال و متاع اس میں اور ملا یا جاوے تو یہ سب کچھ اس عذاب کا معاوضہ نہ ہو سکے گا قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ میں آوے گا کہ جب اس طرح کے دوزخی لوگ دوزخ سے نکالے جانے کی التجا اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اس طرح دھتکار دے گا جس طرح کوئی کتے کو دھتکار دیتا ہے اور سورة زخرف میں آوے گا کہ عذاب کی سختی سے تنگ آن کر جب اس طرح کے دوزخی موت کی التجا اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کریں تو یہ جواب ملے گا کہ دوزخ میں موت نہیں ہے تم کو ہمیشہ اسی حال میں رہناپڑے گا۔ یہ آیتیں آیت یریدون ان یخرجوا من النار وما ھم بخارجین منہا ولھم عذاب مقیم کی گویا تفسیر ہیں۔
Top