Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! خدا سے ڈرتے رہو۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ۔
خطاب باہل ایمان۔ قال تعالیٰ یا ایھا الذین آمنوا اتقواللہ۔۔۔۔ الی۔۔۔ مقیم۔ آیت۔ ربط) اب ان آیات میں اہل ایمان سے خطاب ہے کہ تم بنی اسرائیل کی طرح شرارت نہ کرنا تم کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچو اور اعمال صالحہ کو تقرب الٰہی کا ذریعہ اور وسیلہ بناؤ بنی اسرائیل کی طرح بزدلی نہ دکھاؤ اور اس کے بعد آخرت میں کافروں کی جو بری حالت ہوگی وہ بیان کی تاکہ مسلمانوں کو عبرت ہو اور وہ ان جیسے افعال نہ اختیار کریں چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ تم خدا سے ڈرتے رہو اور اس کی نافرمانی نہ کرو اس لیے کہ اللہ کی نافرمانی اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ ہے اور زمین میں فساد ہے اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ ڈھونڈو یعنی اللہ کے امر ونہی کو بجالاؤ تاکہ تمہیں خدا کے قرب حاصل ہو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ تم خدا کی راہ میں ظاہری اور باطنی دشمنوں سیجہاد کرو اور حدیث میں ہے کہ اصل مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے اور جہاد ظاہری وباطنی قرب خداوندی کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہے امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے تقوی اور جہاد سے فلاح حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں مال کام نہ دے گا تحقیق جن لوگوں نے کفر کیا اگر بالفرض والتقدیر ان کے پاس روئے زمین کا تمام مال ومتاع اور اس کے تمام خزینے اور دفینے موجود ہوں اور اس کے ساتھاتنا ہی اور بھی ہو تاکہ یہ سب دے کر اس کے عوض روز قیامت کے عذاب سے نجات حاصل کرسکیں تو وہ ان سے قبول نہ کیا جائے گا عینی اگر بالفرض کافر کے پاس دو دنیا کے برابر مال اور نقد اور جنس ہو وہ اس سب کو اپنے فدیہ میں دے کر عذاب سے چھوٹنا چاہے تو اس قدر فدیہ بھی قبول نہ کیا جائے گا اور اب دنیا میں تھوڑی سی بات بھی قبول ہے یعنی صرف لاالہ الا اللہ کہنے سے عذاب آخرت سے چھوٹ سکتا ہے مطلب یہ ہے کہ آخرت میں کافر کی نجات کی کوئی سبیل نہیں صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس دوزخی سیجس کو سب سے کم عذاب ہوگا پوچھے گا کہ اگر تیرے پاس ساری دنیا ہو تو کیا تو اس کو اپنے فدیہ میں دے دے گا تو وہ کہے گا ہاں اللہ فرمائے گا کہ میں نے تو تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان چیز طلب کی تھی کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں تجھ کو دوزخ میں نہ کروں گا بلکہ جنت میں داخل کروں گا لیکن تو نے اس آسان کو بھی قبول نہ کیا یعنی لہذا آج تجھ سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کیلیے دردناک عذاب ہے اور یہ کفار ناہنجار اس روز فلاح کا تصور بھی نہیں کرسکتے ان کی انتہائی تمنا اور آرزو یہ ہوگی کہ دوزخ کی آگ سے باہر نکل جائیں مگر ان کی یہ تمنا بھی پوری نہ ہوسکے گی اور یہ لوگ کسی صورت بھی اس سے نکل نہ سکیں گے اور ان کیلیے ہمیشہ کا عذاب ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا عذاب مقیم سے دائم اور مستمر مراد ہے کہ جس سے نہ نکلنا ہوگا اور نہ چھوٹنا کما قال تعالی، کلما ارادو ان یخرجوا منھا اعیذو فیھا۔ آیت۔ عذاب مقیم کے اصل معنی یہ ہیں کہ وہ عذاب ٹھہرا ہوا ہوگا کہ نہ اپنی جگہ سے جنبش کرے اور نہ ہلے اور نہ ٹلے یعنی دائمی ہوگا۔ (ف 1) ۔ حسن بصری اور مجاہد اور قتادہ اور عطاء اور سدی اور ابن زید اور عبداللہ بن کثیر سے منقول ہے کہ آیت میں لفظ وسیلہ سے قرب کے معنی مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کا قرب اور اتصال تلاش کرو (تفسیر قرطبی ص 159 ج 6) اور وہ جو حدیث میں ہے کہ وسیلہ جنت میں ایک اعلی ترین منزل ہے اس کو وسیلہ اسی بناء پر کہا گیا کہ وہ منزل مکانات جنت میں سے قریب تربعرش ہے اور ابن عباس سے بھی یہی منقول ہے کہ وسیلہ کے معنی تقرب کے ہیں اور مطلب یہ ہے تقوی اور اعمال صالحہ کو قرب خداوندی کا ذریعہ بناؤ غرض یہ کہ اس آیت کو مسئلہ توسل بالصالحین سی کوئی تعلق نہیں گو وہ مسئلہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے (روح المعانی ص 111 ج 6) ۔ (ف 2) ۔ اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ کافر کبھی عذاب سے نجات نہ پائیں گے اور اسی پر تمام اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے۔ 3) اور وماھم بخارجین من النار یہ ترکیب مااناقلت کے باب سے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر تو عذاب دو زخ سے کبھی نہ نکلیں گے جس کا مطلب یہ ہوا کہ کافروں کے علاوہ اور گروہ ایسا ہے کہ وہ بعد چندے دوزخ سے نکل جائے وہ گروہ گنہ گاری مسلمانوں کا ہے جیسا کہ احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ عصاۃ موحدین بالاآخر نار سے نکالے جائیں گے۔
Top