Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ سے ڈرو اور اس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو ‘ شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوجائے ۔
(آیت) ” نمبر 35 تا 37۔ اسلامی نظام نفس انسانی کی اصلاح کے لیے ہر ذریعہ استعمال کرتا ہے اور اسے ہر پہلو سے گھیرتا ہے ۔ اسلامی نظام انسانی شخصیت کے باطن کی اصلاح بھی ضروری سمجھتا ہے ۔ وہ تمام ذرائع استعمال کرکے اسے اللہ کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے اور معصیت کردگار سے روکتا ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کا مقصد اولیں اصلاح فرد ہے اور ایک فرد کو ہر قسم کے انحراف سے بچانا مطلوب ہے ۔ اور سزا دہی کا نظام بھی ایک فرد بشر کی اصلاح ہی کا ایک ذریعہ ہے ۔ سزا دہی اصل مقصد ہے ہی نہیں ۔ ذرا اس سبق پر غور کیجئے کہ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے واقعہ سے شروع ہوتا ہے ۔ اس سبق میں جا بجا اشارات ہیں ۔ اس کے بعد اس میں سزا کا اعلان کیا جاتا ہے تاکہ دلوں کو اس کی طرف جانے سے روکا جائے ۔ پھر خدا خوفی کی دعوت دی جاتی ہے اور خدا کے عذاب آخرت سے ڈرایا جاتا ہے اور سزا کی اس خوفناک تصویر کشی کے ساتھ ساتھ کہا جاتا ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ “ (5 : 35) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈور) یعنی مناسب یہی ہے کہ اصل خوف اللہ کا خوف ہے ‘ اور انسان جو اکرم المخلوقات ہے ‘ اس کے شایان شان بھی یہ ہے کہ وہ خدا سے ڈرے ۔ کوڑے اور تلوار اور ڈنڈے سے ڈرنا تو ایک گرا ہوا مقام ہے اور ڈنڈے کے ذریعے اصلاح کی تو صرف ان لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے تو لوگ گرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ خدا ترسی تو ایک بہتر ‘ پاکیزہ تر اور شریفانہ مقام ہے ۔ پھر خدا ترسی ایک ایسا چوکیدار ہے جو دلوں میں بیٹھا ہوتا ہے جو اعلانیہ اور خفیہ دونوں حالتوں میں سر پر بیٹھا ہوتا ہے ۔ جن حالات میں انسان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ۔ اس وقت بھی تقوی اس کا نگران ہوتا ہے ۔ ایسے معاملات میں صرف تقوی ہی بدی اور شر سے روکتا ہے ‘ جن میں انسان قانون کی گرفت سے دور ہوتا ہے ۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھنے کے لائق ہے کہ تقوی کے بغیر قانون کی گرفت ڈھیلی ہوتی ہے ‘ کیونکہ جو مجرم قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں ان کی تعداد ان لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ جو معاشرہ صرف قانون پر قائم ہوتا ہے اس میں نہ کسی فرد کی اصلاح ہوتی ہے اور نہ اس معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے ۔ قانون کے پیچھے ایک پوشیدہ چوکیدار کا ہونا ضروری ہے اور یہ چوکیدار صرف خدا خوفی کا چوکیدار ہوتا ہے جو ہر دل میں بوجہ خدا ترسی اور تقوی بیٹھا ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وابتغوا الیہ الوسلۃ “۔ (5 : 35) (اور اس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرو) اللہ سے ڈرو اور اس تک جانے کا وسیلہ تلاش کرو ‘ اور ان اسباب کی تلاش کرو جو تمہیں اللہ کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے (آیت) ” وابتغوا الیہ الوسلۃ “۔ (5 : 35) (یعنی اس سے اپنی حاجات طلب کرو) کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور پھر اپنی حاجات اللہ سے طلب کرتے ہیں تو وہ اس وقت بندگی کی صحیح پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ اس وقت اللہ کی ربوبیت پر انہیں پورا پورا یقین ہوجاتا ہے اور ایسے حالات میں وہ اصلاح اور فلاح دونوں کے قریب تر پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ دونوں تفسیریں اس آیت کے الفاظ کے ساتھ لگا کھاتی ہے ۔ دونوں کے ذریعے دل کی دنیا کی اصلاح ‘ ضمیر اور روح کی زندگی اور وہ فلاح اخروی حاصل ہوتی ہے جو ہمارا نصب العین ہے ۔ (آیت) ” وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون “۔ (5 : 35) (اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو ‘ شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوجائے) اس کے مقابلے میں کفار کا منظر آتا ہے ‘ جو اللہ سے نہیں ڈرتے اور جو اللہ تک پہنچنے کے لئے ذریعے کی تلاش نہیں کرتے ۔ اور آخرت میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ یہ زندہ اور متحرک منظر ہے ‘ نظروں کے بالکل سامنے ۔ قرآن ‘ اس آیت کے بیان میں بیانیہ اور احکام قانون کا انداز اختیار نہیں کرتا بلکہ ان کے بارے میں حرکات اور تاثراقت پیش کئے جاتے ہیں ۔ شاید قیامت کے بیان میں قرآن کریم کا یہ ایک خاص اسلوب ہے اور اس سے بیان کے تمام اغراض ومقاصد حاصل ہوجاتے ہیں ۔
Top